سعودی عرب نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والے مذاکرات کے دوران اسلامی جمہوریہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے اور پائیدار امن و استحکام کے لیے طریقہ کار کے قیام کا خیر مقدم کیا ہے۔
سعودی عرب کی وزارت خارجہ کی جانب سے اتوار 19 اکتوبر 2025 کو جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ مملکت پاکستان اور افغانستان کے درمیان دیرپا امن اور استحکام کو مضبوط کرنے کے لیے ہونے والے اس معاہدے کا خیرمقدم کرتی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب خطے اور بین الاقوامی سطح پر امن و استحکام کے فروغ کے لیے کی جانے والی تمام کوششوں کی بھرپور حمایت کرتا ہے، اور اس کا مقصد برادر اقوام پاکستان اور افغانستان کے لیے استحکام اور خوشحالی کو یقینی بنانا ہے۔
وزارت خارجہ نے امید ظاہر کی کہ یہ مثبت قدم دونوں ممالک کے درمیان سرحدی کشیدگی کو ختم کرنے کا سبب بنے گا۔ سعودی عرب نے اس سلسلے میں قطر اور جمہوریہ ترکیہ کی جانب سے ادا کیے گئے سفارتی اور تعمیری کردار کو بھی سراہا اور ان کی کاوشوں کو سراہا ہے۔
واضح رہے کہ دوحہ میں ہونے والے ان مذاکرات کے نتیجے میں دونوں ہمسایہ ممالک نے سرحدی تناؤ اور جھڑپوں کے خاتمے کے لیے ایک اہم قدم اٹھایا ہے۔
سعودی وزارت خارجہ نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ ’ایکس‘ پر جاری بیان میں کہا کہ مملکت امن و استحکام کے لیے علاقائی اور بین الاقوامی کوششوں کی مکمل حمایت کرتی ہے تاکہ دونوں برادر اقوام کے لیے خوشحالی یقینی بنائی جا سکے۔ سعودی عرب نے اس معاہدے میں ثالثی کا اہم کردار ادا کرنے پر قطر اور ترکیہ کی سفارتی کاوشوں اور تعمیری کردار کو بھی سراہا۔
واضح رہے کہ یہ معاہدہ 11 اکتوبر کی شب شروع ہونے والی شدید سرحدی جھڑپوں کے بعد ہوا ہے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق ان جھڑپوں میں 23 پاکستانی فوجی شہید ہوئے جبکہ 200 سے زائد طالبان اور متعلقہ عسکریت پسند مارے گئے۔
افغانستان نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ حملہ اس کی جانب سے "جوابی کارروائی” تھی اور پاکستان پر فضائی حملوں کا الزام لگایا تھا۔ پاکستان نے اس الزام کی نہ تصدیق کی اور نہ ہی تردید کی۔
اہم بات یہ ہے کہ یہ سیز فائر ایسے وقت میں ہوا ہے جب 17 اکتوبر کو بھی پاکستان نے افغانستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا تھا۔
پاکستان میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے سیز فائر ختم کیے جانے کے بعد سے خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کی بڑی تشویش یہ ہے کہ 2021 میں طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد بھی ٹی ٹی پی کو افغان سرزمین استعمال کرنے سے نہیں روکا جا رہا ہے۔ کابل ان الزامات کی تردید کرتا رہا ہے۔