انسانی معاشرے نے ارتقاء کے مختلف مراحل سے گزر کر ایک پیچیدہ نظام کی شکل اختیار کی ہے۔ وقت کے ساتھ کئی اہم تبدیلیوں کا سامنا کیا ہے۔ ہر ارتقائی عمل سے زندگیوں پر نمایاں اور مخصوص اثر پڑا ہے۔
پہلے لوگ شکار کرتے تھے، پھر کھیتی باڑی کی اور پھر فیکٹریوں میں کام کرنے لگے۔ آج کل ہم معلومات کے دور میں جی رہے ہیں جہاں ہر روز مرہ کے چیزیں ڈیٹا اور انٹرنیٹ پر مبنی ہیں۔ 21 ویں صدی کے آغاز کے ساتھ، عالمی معاشرہ ایک معلومات پر مبنی معاشرے میں تبدیل ہو گیا ہے، جو مکمل طور پر ڈیٹا اور مواصلات سے چل رہا ہے، جو ایک طرح انقلابی تبدیلی کی علامت ہے۔
انٹرنیٹ نے دنیا کو ایک گلوبل گاؤں بنا دیا ہے۔ اس جدید ٹیکنالوجی میں خاص طور پر انٹرنیٹ نے لوگوں کو ایک دوسرے سے جوڑنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ اب لوگ دنیا کے کسی بھی کونے میں بیٹھ کر ایک دوسرے سے بات چیت کر سکتے ہیں اور دنیا بھر میں ہونے والے واقعات کے بارے میں جان سکتے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑی مثبت تبدیلی ہے۔
تاہم اس کے ساتھ ساتھ کچھ منفی اثرات بھی سامنے آئے ہیں۔ اب ہر کوئی اپنی مرضی کی معلومات پوری دنیا میں پھیلانے کے قابل ہو گیا ہے۔ اس سے جھوٹی خبریں پھیلنے، نفرت پھیلانے اور تشدد کو ہوا دینے کا خطرہ بڑھ گیا ہے-
انٹرنیٹ کے استعمال سے تشدد پسند یا دہشت گرد گروہ بنیادی فائدہ اٹھانے والے بن گئے ہیں۔ سوشل میڈیا اور دیگر نیٹ ورکنگ سائٹس کا استحصال کرتے ہوئے، ان گروہوں نے اپنے پیغامات اور پروپیگنڈے کو سامعین تک پھیلانے کے لیے ایک پلیٹ فارم تلاش کر لیا ہے۔ سوشل میڈیا نیٹ ورکس کی پہنچ نے تشدد پسند غیر ریاستی اداکاروں کو سرحدوں سے آگے بڑھنے کی اجازت دی ہے، انہیں بغیر کسی نمایاں رکاوٹوں کا سامنا کیے شہریوں تک رسائی حاصل ہے۔ نتیجے کے طور پر، یہ گروہ بغیر کسی خوف کے اپنی معلومات اور بیانات پھیلانے کے قابل ہیں۔ انٹرنیٹ کا استعمال شدت پسند گروہوں کے لیے ایک نیا میدان جنگ بن گیا ہے۔ اپنے نظریات پھیلانے کے لیے
یہ شدت پسند گروہ اپنے لائحہ عمل کو معاشرےمیں پھیلانے کے ساتھ ساتھ مؤثر طریقے سے عمل میں لا رہے ہیں-
مثال کے طور پر پاکستان میں شدت پسند گروہ، چاہے وہ ملک میں قائم ہوں یا دوسرے علاقوں سے کام کر رہے ہو بڑے پیمانے پر سماجی ذرائع سے آن لائن نیٹ ورکس کے زیر سایہ بغیر کسی نتائج کی پرواہ کیے اس کا استعمال کر رہے ہیں ۔ دہشت گرد تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، جو اپنے آپریشنز کے لحاظ سے سب سے زیادہ مہلک اور فعال گروہوں میں سے ایک ہے، سوشل میڈیا اور میسجنگ ایپس پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے۔ فیس بک، انسٹاگرام، ایکس (سابقہ ٹویٹر) اور ٹیلی گرام جیسے پلیٹ فارمز کے ذریعے، گروپ باقاعدگی سے اپنے حامیوں اور ان لوگوں کے لیے بیانات، ویڈیوز، آڈیوز اور کتابچے شائع کرتا ہے جو ان کی مواد میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ سماجی رابطوں کے ذرائع کو استعمال میں لاتے ہوئے
شدت پسند گروہ نتائج کی پرواہ کیے بغیر اپنے پیغامات اور پروپیگنڈے کو وسیع پیمانےپر ان سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر پھیلاتے ہیں-
اسٹریٹجک طور پر ٹی ٹی پی ان پلیٹ فارمز کا استعمال عوام میں پروپیگنڈہ تیار کرنے اور پھیلانے کے لیے کرتی ہے۔ یہ اپنا موقف موثر بیانات کے ذریعے مختلف گروپس میں پروپیگنڈہ کے طور پر پھیلاتا ہے جو کہ اکثر صارفین ڈیٹا کی درستگی کی تصدیق کیے بغیر ان پر اعتماد کرکے مزید شئیر کرنے لگ جاتے ہیں- اس بات سے قطعی طور پر کوئی انکار نہیں کہ جدید ٹیکنالوجی نے لوگوں کے لیے بے شمار فوائد پیدا کیے ہیں مگر اس کے بدریغ استعمال نے غلط معلومات اور جھوٹی خبروں کے لیے بھی ایک جگہ پیدا کی ہے۔ شدت پسند گروہ آسانی سے ایک کلک کا استعمال کرکے اپنے پیغامات دنیا کے کونے کونے تک پہنچا سکتے ہیں۔ ہمیں اس ٹیکنالوجی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کے نقصانات سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔