پاک بھارت کشیدگی: کیا امن کا کوئی امکان ہے؟

 پاکستان اور بھارت کے درمیان مقبوضہ کشمیر پر مرکوز کشیدگی میں اضافہ 22 اپریل 2025 کو پہلگام میں ہونے والے ایک دہشت گردانہ حملے کے باعث شروع ہوا۔ اس حملے میں 26 افراد ہلاک ہوئے جن میں زیادہ تر ہندو سیاح تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری دی ریزسٹنس فرنٹ (ٹی آر ایف) نے قبول کی ہے۔اس تنظیم پر بھارت کا الزام ہے کہ وہ پاکستان میں مقیم لشکر طیبہ کی پراکسی ہے۔ بھارت نے واقعے کے فوری بعد پاکستان پر سرحد پار دہشت گردی کی حمایت کا الزام عائد کیا۔ بھارت نے اس حملے میں ملوث حملہ آوروں میں دو پاکستانی شہریوں کی موجودگی کا دعوی کیا۔

 بھارت نے بغیر تصدیق اس الزام تراشی سے ماضی کے روایتی رویوں کو دہرایا ہے۔ جواب میں پاکستان نے اس حملے میں کسی طرح بھی ملوث ہونے کی تردید کی ہے اور اس حملے کو دہشتگردوں کی سفاکانا کاروائی قرار دے کر اس کی بھرپور مذمت کی ہے۔ بذات خود وزیر اعظم شہباز شریف نے اس واقعے کی ایک غیر جانبدار بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

صورتحال اس وقت مزید خراب ہو گئی جب بھارت نے عجلت سے کام لیتے ہوئے 1960 کے سندھ طاس معاہدے کو معطل کر دیا، سرحدیں بند کر دی اور پاکستانی سفارت کاروں کو ملک بدر کر دیا جبکہ پاکستان نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے اپنی فضائی حدود کو بھارتی پروازوں کے لیے بند کر دیا اور کسی بھی فوجی کارروائی پر فیصلہ کن جواب دینے کی وارننگ دی۔ لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر چھوٹے ہتھیاروں سے فائرنگ کا تبادلہ ہوا ہے جس سے دو جوہری ہتھیاروں سے لیس ہمسایہ ممالک کے درمیان مزید کشیدگی بڑھنے کا خدشہ ہے۔

پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے امریکی ٹی وی اسکائی نیوز کو ایک انٹرویو میں کہا کہ پاکستان کو تین دہائیوں تک عالمی طاقتوں نے خاص طور پر امریکہ اور مغربی ممالک نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا۔ انہوں نے ان طاقتوں کی ایما پر ماضی میں عسکریت پسند سرگرمیوں کی حمایت میں پاکستان کے کردار کا اعتراف کرتے ہوئے اسے ایک "غلطی” قرار دیا جس کے نتیجے میں پاکستانیوں نے بے پناہ مصائب برداشت کیے ہیں۔ اس اقدام سے ملک کو معاشی تباہی، داخلی سلامتی کے بحرانوں، دہشت گردی اور انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کے نتیجے میں بے شمار جانوں کے ضیاع کا سامنا کرنا پڑا۔ خواجہ آصف کے ریمارکس پاکستان کی اس مایوسی کی عکاسی کرتے ہیں کہ اسے قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے۔ خواجہ آصف نے اس انٹروویو میں بھارت پر کشمیر میں اپنی حکومتی ناکامیوں سے توجہ ہٹانے کے لیے حملے کرانے کا بھی ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔

 ممتاز پاکستانی سفارت کار ملیحہ لودھی نے سال 2017 میں ایک کالم میں پاکستان کی قربانیوں پر زور دے کر کہا تھا کہ کسی بھی ملک نے دہشت گردی کے خلاف  جنگ  میں پاکستان سے زیادہ کام نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس جنگ میں پاکستان نے 70,000 جانیں اور 120 ارب ڈالر سے زیادہ کا معاشی نقصان اٹھایا ہے۔ انہوں نے اس بات کا بھی اعتراف کیا  کہ عالمی سطح پر پاکستان کی کوششوں کو کم سراہا گیا ہے اور قوم کو غیر منصفانہ طور پر دہشت گردی کا کفیل قرار دیا گیا ہے۔اس جنگ میں پاکستان امریکہ کی زیر قیادت دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن ریاست رہی ہے۔

بھارت کے پاکستان پر لگائے گئے الزامات میں ٹھوس ثبوت  اور قابل اعتبار حقائق کی کمی ہے۔ اس ضمن میں بھارت کا انحصار تاریخی روش اور حملہ آوروں میں پاکستانی شہریوں کی موجودگی پر ہوتا ہے جس کے جواب میں پاکستان کشمیر کو محفوظ بنانے میں بھارت کی ناکامی اور بلوچستان میں مبینہ طور پر دہشت گردی کی حمایت کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ الزام تراشیاں کشمیر کی پیچیدہ حقیقت سے توجہ ہٹاتی ہیں۔ کشمیر میں بھاری بھرکم بھارتی پالیسیاں جیسے کہ 2019 میں آرٹیکل 370 کی منسوخی اور حال ہی میں کشمیریوں کے گھروں کو مسمار کرنے والی ‘بلڈوزر انصاف’ کی کارروائیوں سے مقامی ناراضگی اور عسکریت پسندی پروان چڑھ رہی ہے۔ دونوں ممالک اپنی عوام کو دکھانے کے لیے اپنا اپنا موقف اختیار کر رہے ہیں۔ اس خطے پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت میں نریندر مودی ایک ہندو قوم پرست کے طور پر اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے اور سیاسی فائدہ اٹھانے جبکہ  پاکستان میں اسٹبلیشمنٹ داخلی بحرانوں کے دوران اپنی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے ایسے اقدامات کے حامی رہے ہیں۔ دونوں ممالک کی جوہری صلاحیتیں اور ماضی میں کشیدگیوں کے پیش نظر حالیہ واقعہ کے بعد پڑوسی ممالک کے درمیان کشیدگی بڑھنے کا خطرہ بہت زیادہ ہے۔

بھارت اور پاکستان کے درمیان موجودہ کشیدگی کو کم کرنے اور ان کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے، دونوں ممالک کو عسکری موقف اختیار کرنے کے بجائے سفارت کاری کو ترجیح دینی چاہیے۔ اعتماد سازی کے اقدامات جیسے کہ تجارتی راستوں کو دوبارہ کھولنا، سندھ طاس معاہدے کو دوبارہ شروع کرنا اور قیدیوں کا تبادلہ  اعتماد کی بحالی میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ دونوں حکومتوں کو اشتعال انگیز بیانات اور میڈیا کی سنسنی خیزی سے گریز کرنا چاہیے اور اس کے بجائے ذمہ داری واضح کرنے کے لیے پہلگام حملے کی مشترکہ تحقیقات پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ سول سوسائٹی، بشمول دونوں طرف کے کشمیریوں کی آوازوں کو ٹریک-II سفارت کاری میں شامل کرنا، مسئلہ کشمیر پر طویل مدتی بات چیت کو فروغ دے سکتا ہے۔ ان اقدامات پر عمل پیرا ہو کر بھارت اور پاکستان جنگ سے بچ سکتے ہیں، معاشی استحکام کو برقرار رکھ سکتے ہیں، اور غربت اور موسمیاتی تبدیلی جیسے مشترکہ چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے جگہ بنا سکتے ہیں جس سے ان کے عوام کے لیے ایک پرامن مستقبل یقینی ہو سکتا ہے۔

 ماضی میں بھارتی رہنما برملا اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ پاکستان ایک حقیقت ہے اور عالمی دنیا میں اس کا ایک اہم کردار ہے۔ اس کا ذکر اس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے لاہور آ کر بھی کیا تھا۔ انہوں نے لاہور میں اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان ایک حقیقت ہے ہم تاریخ بدل سکتے ہیں جغرافیہ نہیں، دوست بدل سکتے ہیں مگر ہمسایہ نہیں۔ واجپائی نے ہندوستان کی تقسیم کو حقیقت کہتے ہوئے یہ کہا کہ ہمارے پاس پرامن رہنے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں۔ اس سوچ اور جذبے کو لے کر دونوں ممالک حل طلب معاملات کو سمٹ کر آگے کی طرف بڑے اور دنیا کو بڑی بربادی سے بچانے کا راستہ ہموار کریں۔

جنگ سے بچنے اور جنگی جنویت کے ماحول کو زائل کرنے کے لیے دونوں فریقوں کو براہ راست بات چیت کے ذریعے کشیدگی کم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے. 2021 کے جنگ بندی معاہدے سے فائدہ اٹھانا چاہیے بجائے اس کے کہ وہ کسی تیسرے فریق کی ثالثی کا انتظار کریں ۔اگر تاریخی طور پر دیکھا جائے تو مسئلہ کشمیر کو حل کرنے میں تیسری فریق کی شمولیت سے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ امریکہ اور اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی سطح پر تحمل کی اپیلیں دوطرفہ کوششوں کی فوری ضرورت کو اجاگر کرتی ہیں تاکہ ایک بڑی علاقائی تباہی کو روکا جا سکے اور لوگوں کو ایک پرامن فضا میں سانس لینے کا موقع فراہم کیا جا سکے۔

متعلقہ خبریں

مزید پڑھیں