تہران میں بڑے پیمانے پر انخلا، امریکہ کی اسرائیلی حملوں میں شمولیت کا امکان برقرار

| شائع شدہ |15:47

صدر ڈونلڈ ٹرمپ عالمی مبصرین کو الجھن میں ڈالے ہوئے ہیں کیونکہ وہ جان بوجھ کر یہ واضح نہیں کر رہے کہ آیا امریکہ ایران کے جوہری اور میزائل تنصیبات کے خلاف اسرائیل کی فضائی مہم میں حصہ لے گا یا نہیں۔

وائٹ ہاؤس کے باہر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے اس ابہام پر زور دیا کہ "میں یہ کر بھی سکتا ہوں، اور نہیں بھی کر سکتا ہوں۔” ساتھ ہی انہوں نے اس بات کا بھی اشارہ دیا کہ ایران اب بھی واشنگٹن کا سفر کرکے سفارت کاری میں شامل ہو سکتا ہے۔
اگرچہ امریکہ کی جانب سے کوئی براہ راست کارروائی نہیں کی گئی، لیکن تنازعہ کے ساتویں دن داخل ہونے پر، امریکی فوج نے اضافی طیارے تعینات کر کے علاقائی سلامتی کو مضبوط کیا۔ امریکی دفاعی عہدیدار نے کہا کہ اگر ٹرمپ حملوں کا حکم دیتے ہیں تو وہ مکمل طور پر عمل درآمد کے لیے تیار ہیں۔

ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے 18 جون کو ایک سخت وارننگ جاری کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کی کوئی بھی فوجی کارروائی "سنجیدہ اور ناقابل تلافی نتائج” کا باعث بنے گی۔ تہران میں اسرائیل کی جانب سے فوجی اور جوہری اہداف پر فضائی حملوں میں شدت آنے کے بعد شہری فرار ہو رہے ہیں اور ایران نے میزائل حملوں سے جواب دیا ہے جن میں سے کچھ اسرائیلی فضائی دفاع سسٹم کو توڑ کر شہری نشانہ بنے ہیں۔

دریں اثنا، جرمنی، فرانس اور برطانیہ کے یورپی وزرائے خارجہ جنیوا میں ایران کے وفد سے ملاقات کرنے والے ہیں۔ ان کا مقصد یہ یقینی بنانا ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام سختی سے پرامن مقاصد کے لیے رہے گا جو اس بڑھتے ہوئے تنازعہ کے دوران بھی سفارتی کوششوں کا مظاہرہ ہے۔

تہران جہاں تقریباً 10 ملین آبادی موجود ہیں جو اسرائیلی فضائی حملوں کی ایک شدید لہر کے بعد شہر سے فرار ہو رہے ہیں۔ تاہم ان حملوں کے حوالے سے اسرائیلی احکام کا کہنا ہے کہ ان کی ٹارگٹ ایرانی فوجی اور جوہری اہداف ہیں ۔ ایرانی شاہراہیں شہریوں کے تحفظ کے لیے بھاگنے سے بند ہو گئیں ہیں۔
اطلاعات کے مطابق صدر ٹرمپ نے ایران کے خلاف امریکی حملے کے منصوبوں کی منظوری دے دی ہے، لیکن انہوں نے سبز بتی دینے میں وقفہ لیا ہے اس امید پر کہ تہران اپنے جوہری عزائم پر نرمی اختیار کر سکتا ہے۔ انہوں نے کسی بھی چیز کو مسترد نہیں کیا اور خبردار کیا ہے کہ ایران کی موجودہ حکومت بھی گر سکتی ہے۔ ٹرمپ نے یہ بھی نشاندہی کی کہ صرف امریکہ کے پاس زیر زمین فورڈو جوہری تنصیب کو غیر فعال کرنے کی صلاحیت ہے اگرچہ انہوں نے زور دیا کہ یہ ضروری نہیں کہ اس کے ساتھ آگے بڑھیں۔

عسکری ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اسرائیل فورڈو کو نشانہ بناتا ہے تو اسے امریکہ کی مدد کی ضرورت پڑ سکتی ہے کیونکہ یہ سائٹ ایران کے علاقے قم کے قریب ایک پہاڑ کے نیچے دفن ہے۔

جبکہ ایران کے سپریم لیڈر نے خبردار کیا کہ کسی بھی امریکی فوجی مداخلت سے "ناقابل تلافی” نقصان ہوگا اور کہا کہ ایرانی عوام ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔
جوابی کارروائی میں، ایران نے اسرائیلی اہداف کی طرف تقریباً 400 میزائل اور ڈرون داغے ہیں۔ اگرچہ زیادہ تر کو مار گرایا گیا مگر چند مزائل اسرائیلی فضائی دفاعی سسٹم کو توڑا جس سے شہری ہلاکتیں ہوئیں ہیں ۔ اسرائیل نے بھی جوابی کارروائی کرتے ہوئے درجنوں جیٹ طیاروں کے ذریعے ایرانی تنصیبات بشمول پولیس ہیڈکوارٹر اور میزائل سائٹوں کو نشانہ بنایا ہے۔

تہران سے انخلا

ایران پر بڑھتے ہوئے فضائی حملوں کے دوران شہری بمعہ ان کے خاندان کی نقل مکانی اور تہران سے انخلا شروع ہو چکا ہے۔ ان میں سے کچھ قریب و جوار قصبے جیسے کہ لواسان جاتے ہوئے ان پر شاہراہیں بند ہو گئی ہیں۔
۔ ایک31 سالہ رہائشی آرزو نے بتایا کہ کس طرح اس کے دوست کا گھر نشانہ بنا اور اس کا بھائی زخمی ہوا اور اس پر اپنی مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "ہم حکومت کے فیصلوں کی قیمت کیوں ادا کر رہے ہیں؟”

دوسری جانب اسرائیل میں بھی آنے والے خطرے کو محسوس کیا جا رہا ہے جب بھی ایرانی میزائل شہر میں داخل ہوتے ہیں تو سائرن بج اٹھتے ہیں ۔ ان میں ایک ڈرائیور گرنے والے ملبے سے زخمی ہوا جس کے بعد حکام نے عارضی طور پر پناہ گاہوں میں رہنے کے احکامات کو نرم کر دیا۔ چند فوٹیج میں دکھایا گیا کہ رمات گان کے ایک ٹرین اسٹیشن پر مسافر بشمول شیر خوار بچے اور ان کے والدین عارضی گدوں پر آرام کرے ہیں اور جاری جنگی خطرات سے واضح طور پر پریشان نظر آ رہے ہیں ۔

تامار وائس اپنے چار ماہ کے بچے کو پکڑے ہوئے خوف میں جینے کی کیفیت بیان کی ہے۔ وہ بتاتی ہے کہ شہر کی پرانی غیر محفوظ عمارتیں انہیں آسان ہدف بناتی ہیں اور لوگوں کو غیر محفوظ ہونے کا احساس دلاتی ہیں۔
ایران نے حالیہ اسرائیلی حملوں میں کم از کم 224 ہلاکتیں رپورٹ کیں جن میں زیادہ تر عام شہری تھے، اگرچہ یہ اعداد و شمار اب مکمل اور تازہ نہیں ہیں۔ اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ ہفتے کے آخر سے ایران کی طرف سے تقریباً 400 میزائل اور ڈرون فائر کیے گئے ہیں، جن میں سے تقریباً 40 دفاعی سسٹم کو توڑ کر اسرائیل میں 24 عام شہریوں کی جانیں لے چکے ہیں۔

ایران کا دباؤ: کشیدگی کے بیچ عالمی تیل کے بہاؤ کو خطرہ

ایران اپنے اسٹریٹجک آپشنز پر غور کر رہا ہے جس میں ٹھوس انتباہات بھی شامل ہیں کہ وہ آبنائے ہرمز جو توانائی کی تجارت کے لیے ایک اہم شریان ہیں، کے ذریعے جہازوں کی رسائی کو محدود کر کے عالمی تیل کی مارکیٹ میں خلل ڈال سکتا ہے۔
ملک کے اندر حکومت عوامی جذبات کو مستحکم کرنے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔ حکام نے حالیہ حملوں کی تصاویر اور ویڈیوز کے اشتراک کو محدود کر دیا ہے اور عارضی طور پر انٹرنیٹ تک رسائی کو محدود کر دیا ہے کیونکہ ان کا خیال ہے کہ اس سے مخالفین خوف یا بدامنی کو بھڑکا سکتے ہیں۔
دریں اثنا، ایران کا پراکسی گروپس جیسے حزب اللہ یا حوثی ملیشیا کے ذریعے جوابی کارروائی کا معمول کا طریقہ کمزور پڑ گیا ہے۔ ان گروپس کو گزشتہ اسرائیلی آپریشنز سے نمایاں طور پر نقصان پہنچا ہے جس سے تہران کی اسرائیل پر بالواسطہ حملہ کرنے کی صلاحیت محدود ہو گئی ہے۔

متعلقہ خبریں

مزید پڑھیں