پاکستان کے وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار ہفتہ کو ایک روزہ دورے پر کابل پہنچ گئے۔
وزارت خارجہ کی جانب سے جاری ایک بیان کے مطابق، اسحاق ڈار کا ہوائی اڈے پر افغان حکام نے استقبال کیا جن میں نائب وزیر برائے خزانہ اور انتظامی امور ڈاکٹر محمد نعیم وردگ، ڈائریکٹر جنرل وزارت خارجہ مفتی نور احمد اور چیف آف اسٹیٹ پروٹوکول فیصل جلالی شامل تھے۔
کابل میں پاکستانی مشن کے سربراہ عبید الرحمان نظامانی بھی اسحاق ڈار کی آمد پر موجود تھے۔ افغانستان کے لیے پاکستان کے خصوصی نمائندے محمد صادق بھی اسحاق ڈار کے ساتھ کابل گئے ہیں۔
اسحاق ڈار نے کابل میں قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی کے ساتھ وفود کی سطح پر بات چیت کی۔ ان مذاکرات میں دو طرفہ امور، سلامتی، تجارت، راہداری، رابطہ اور دونوں ممالک کے درمیان عوامی رابطوں سمیت وسیع پیمانے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
وزارت خارجہ کے ایک بیان میں کہا گیا کہ نائب وزیر اعظم نے علاقائی تجارت اور رابطے کی صلاحیت کو مکمل طور پر حاصل کرنے کے لیے تمام متعلقہ مسائل، خاص طور پر سلامتی اور سرحدی انتظام سے متعلق مسائل کو حل کرنے کی انتہائی اہمیت پر زور دیا۔
ڈار نے افغان وزیر اعظم ملا محمد حسن اخوند سے بھی ملاقات کی اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا۔
وزارت خارجہ کے بیان میں بتایا کہ مسلسل تعاون کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے، دونوں فریقین نے برادر ممالک کے درمیان تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے لیے اعلیٰ سطحی تبادلوں کو برقرار رکھنے پر اتفاق کیا۔
افغانستان روانہ ہونے سے قبل اسحاق ڈار نے سرکاری ٹی وی کو بتایا کہ دونوں ممالک کے تاریخی تعلقات ہیں جنہیں مزید مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ ایسے تعاون کی تعمیر کا ارادہ رکھتے ہیں جس سے دونوں ممالک کے لوگوں کو فائدہ ہو۔
جمعہ کو وزارت خارجہ کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ اسحاق ڈار کے دورے میں پاک افغان تعلقات کا مکمل جائزہ لیا جائے گا۔
یاد رہے کہ جمعرات کو اسحاق ڈار نے اعلان کیا تھا کہ ان کے دورہ کابل کی راہ ہموار کرنے کے لیے ابتدائی ملاقاتیں جاری ہیں۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ یہ دورہ اس تعطل کو دور کرنے میں مدد کرے گا جو حالیہ برسوں میں افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کی خصوصیت رہا ہے۔
یہ دورہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب پاکستان پناہ گزینوں کو افغانستان واپس بھیجنے کے دوسرے مرحلے پر عمل پیرا ہے۔ یہ دورہ اسلام آباد کی جانب سے مسلسل بیانات کے درمیان بھی ہوا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان اور بلوچ لبریشن آرمی سمیت دہشت گرد افغانستان میں محفوظ پناہ گاہوں سے کام کر رہے ہیں۔