آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے ملک میں دہشت گردی کی لہر میں اضافے کو حکومتی ناکامیوں کے ساتھ جوڑا ہے اور دہشتگردی کے خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے ‘سخت ریاست’ بننے کی اپیل کی ہے۔
انہوں نے یہ بات منگل کے روز پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے اجلاس کے دوران کہی جہاں انہوں نے فوجی کارروائیوں کے ساتھ ایک جامع نقطہ نظر کی ضرورت پر زور دیا۔
منگل کے روز ان کیمرہ اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس میں وزیراعظم شہباز شریف کے مشورے پر منعقد ہوا جس میں مولانا فضل الرحمان اور بلاول بھٹو زرداری سمیت بڑے سیاسی رہنماوں نے شرکت کی۔ چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ اور پولیس کے سربراہان بھی اجلاس میں موجود تھے۔ تاہم، پاکستان تحریک انصاف سمیت متعدد اپوزیشن سیاسی جماعتوں نے شرکت سے انکار کر دیا۔
اجلاس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیے میں دہشت گردی کے خلاف ‘ریاست کی پوری طاقت’ کے ساتھ قومی اتفاق رائے کی ضرورت پر ذور دیا۔
جنرل عاصم منیر نے حکومت کی جانب سے نیشنل ایکشن پلان اور آپریشن عزمِ استحکام جیسے دہشت گردی کے خلاف طریقہ کار کو مکمل طور پر نافذ کرنے میں مسلسل ناکامیوں کے مسئلے کو اجاگر کیا۔
انہوں نے موجودہ "نرم ریاست” کے ماڈل کے تحت پاکستان آرمی کی قربانیوں اور شہیدوں کے خون پر مسلسل انحصار پر سوال اٹھایا۔
انہوں نے پوچھا ‘ہم کب تک پاکستان آرمی کی قربانیوں اور شہیدوں کے خون سے حکومتی خلا کو پُر کرتے رہیں گے؟’
اعلامیے میں دہشت گرد نیٹ ورکس کی جانب سے سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے غلط استعمال پر تشویش کا اظہار کیا گیا اور اس ڈیجیٹل خطرے کے خلاف ایک جامع فریم ورک کی ضرورت پر زور دیا گیا۔
یہ اجلاس خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں حالیہ اضافے کے بعد ہوا۔ 11 مارچ کو کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کی جعفر ایکسپریس کی ہائی جیکنگ کے واقعے نے اس معاملہ کو مزید نمایاں کر دیا۔ وزیراعظم شہباز شریف اور آرمی چیف نے فیصلہ کن کارروائی کی اشد ضرورت پر زور دیا۔
تاہم اجلاس کے اعلامیے میں افغانستان میں تحریک طالبان پاکستان کے پناہ گاہوں کا ذکر نہیں کیا گیا جسکا بارہا حکام ملک میں دہشت گردی کے تناظر میں ذکر کرتے رہے ہیں۔