ڈیجیٹل دور میں ڈس انفارمیشن کا بڑھتا چیلنج: قوانین کا نفاذ اور دینی تعلیمات کا حکم

ڈیجیٹل دور کی اس تیز رفتاری میں ایک جعلی ویڈیو یا کاٹا ہوا کلپ چند سیکنڈوں میں لاکھوں، کروڑوں لوگوں کے موبائیلوں تک پہنچ جاتا ہے اور پوری قوم کے ماحول کو زہر آلود کر دیتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان سمیت پوری دنیا میں غلط معلومات (ڈس انفارمیشن) کا پھیلاؤ خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے۔ اسے روکنے کے لیے عالمی ممالک نئے قوانین بنا رہے ہیں، ڈیجیٹل کمپنیوں پر دباؤ ڈال رہے ہیں اور فیکٹ چیک کے اداروں کو مضبوط کر رہے ہیں۔

پاکستان کے صحافی اور محقق لیاقت علی کہتے ہیں کہ ڈس انفارمیشن یعنی غلط معلومات کی وجہ سے معاشرے کو شدید نقصان پہنچتا ہے جو فسادات کا سبب بنتی ہے۔ اسے روکنے کے لیے ضروری ہے کہ سزا کا عمل یقینی بنایا جائے اور فیکٹ چیک کا نظام مضبوط کیا جائے۔“

پی ٹی اے کے حکام کا کہنا ہے کہ وہ پیکا PECA قانون اور سوشل میڈیا رولز کے تحت مسلسل غیر قانونی اور جعلی مواد کو ہٹاتے رہتے ہیں، لیکن چونکہ تمام بڑی کمپنیاں غیر ملکی ہیں، اس لیے ان سے اطاعت کرانا ایک بڑا چیلنج ہے۔

پیکا قانون اور متعلقہ رولز کے تحت ایسے مواد کو غیر قانونی قرار دیا جاتا ہے جو نظریہ پاکستان کے خلاف ہو، جو لوگوں کو قانون ہاتھ میں لینے پر اکسائے، نفرت انگیز تقریر پر مبنی ہو، توہین آمیز یا فرقہ واریت کو ہوا دے، یا فحاشی پر مبنی ہو۔

تجزیہ کار ریاض احمد کہتے ہیں کہ ہم نے یہ سب کھلی آنکھوں سے دیکھا ہے:

”بھارت اور افغانستان کے ساتھ کشیدگی کے دوران دونوں ممالک نے سوشل میڈیا کے ذریعے بڑی مقدار میں غلط معلومات پھیلائیں اور جنگ کا ماحول مزید گرم کر دیا۔ ملک کے اندر بھی ایک مخصوص سیاسی جماعت اور اس کے بیرونی فنڈرز روزانہ ریاست اور اداروں کے خلاف جعلی مہمات چلاتے ہیں۔ پھر دیگر ممالک کے ٹرولز بھی شامل ہو جاتے ہیں اور پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچاتے ہیں۔“

پاکستان ٹیلی کمیونکشن کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ قابل اطلاق قوانین اور عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کرنے والے آن لائن مواد کو مسدود (Block) کرنے یا ہٹانے کے لیے سوشل میڈیا کمپنیوں اور دیگر سروس فراہم کنندگان سے رابطہ کرے۔

لیکن یہاں ایک میٹھی حقیقت بھی ہے۔ ریاض احمد نے خبرکدہ کو مزید بتایا کہ

”الحمدللہ! ہمارے پاکستانی نوجوان اتنی بیداری اور غیرت رکھتے ہیں کہ وہ فوراً ان کے جھوٹ کا رد کرتے ہیں، حقائق سامنے لاتے ہیں اور فتنے کو ناکام بنا دیتے ہیں۔ یہ ہماری قوم کی غیرت اور دینی جذبے کا ثبوت ہے۔“

اسلامی تعلیمات میں جھوٹی خبروں کی مذمت

قانون اور اداروں کی کوششوں کے ساتھ ساتھ علماء اور مبلغین کہتے ہیں کہ اس فتنے کا اصل حل ہمارے ہاتھ میں ہے، یعنی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا حکم۔

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں:

{يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ إِن جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَإٍۢ فَتَبَيَّنُوٓا۟ أَن تُصِيبُوا۟ قَوْمًۢا بِجَهَـٰلَةٍۢ فَتُصْبِحُوا۟ عَلَىٰ مَا فَعَلْتُمْ نَـٰدِمِينَ}

(سورۃ الحجرات: 6)

یعنی: ”اے ایمان والو! اگر تمہیں کوئی فاسق کوئی خبر لائے تو تحقیق کر لیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم نادانی میں کسی قوم کو نقصان پہنچا دو، پھر اپنے کیے پر پچھتاؤ۔“

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

كَفَى بِالْمَرْءِ كَذِبًا أَنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ

(صحیح مسلم)

یعنی: ”آدمی کے جھوٹے ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ جو کچھ سنتا ہے، وہی آگے بیان کرتا پھرے۔“

آج ہر پاکستانی جو ایک میسج فارورڈ کرتا ہے، وہ اس آیت اور اس حدیث کے سامنے کھڑا ہوتا ہے۔ اگر خبر جھوٹی نکلی تو قیامت کے دن اس سے ہر اس شخص کے بارے میں پوچھا جائے گا جس کے دل میں اس کے فارورڈ کی وجہ سے کینہ پیدا ہوا یا جس نے پاکستان کے خلاف ہاتھ اٹھایا۔

پاکستان کے معروف عالم و مبلغ مولانا طارق جمیل نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا:

”آج جھوٹ پھیلانا صرف ذاتی گناہ نہیں…“

پاکستان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں "انسانی حقوق اور بنیادی آزادی کے تحفظ اور فروغ کے لیے ڈس انفارمیشن کا انسداد” کے عنوان سے ایک قرارداد پیش کی جسے متفقہ طور پر منظور کیا گیا۔ اس قرارداد کا مقصد رکن ممالک اور متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے ڈس انفارمیشن کے انسداد کے لیے مؤثر مہم شروع کرنے اور شفافیت کو فروغ دینے میں مدد دینا ہے۔

یورپی یونین میں، ڈس انفارمیشن سے نمٹنے کے لیے تادیبی (Punitive) اقدامات کے بجائے حقائق کی جانچ (Fact-Checking) اور میڈیا خواندگی (Media Literacy) کے پروگراموں کو فروغ دینے پر زور دیا جاتا ہے۔ ‘ڈس انفارمیشن پر عملی ضابطہ’ (Code of Practice on Disinformation) کے تحت پلیٹ فارمز کو حقائق کی جانچ کرنے والوں کے ساتھ کام کرنے اور صارفین میں بیداری پیدا کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔

کچھ ممالک جیسے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں جعلی معلومات پھیلانے پر سخت سزائیں بشمول قید کی سزائیں بھی دی جاتی ہیں۔

عالمی ممالک غلط معلومات کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے قانون سازی، تکنیکی نفاذ اور عوامی بیداری دونوں محاذوں پر کام کر رہے ہیں۔

متعلقہ خبریں

مزید پڑھیں