ایکسکلوزو: کرم میں امن کی امیدیں دم توڑنے لگیں، بدامنی پھر سر اٹھانے لگی

| شائع شدہ |18:09

ضلع کرم میں بدامنی کی وجہ سے لوگوں کی زندگی اجیرن بن گئی ہے۔ گزشتہ سال سے کرم میں شعیہ سنی فسادات کی وجہ سے سینکرڑوں افراد کی ہلاکت اور اربوں روپے کے نقصان کے بعد کوہاٹ امن معاہدہ، مقامی سطح پر گاؤں کے درمیان امن معاہدے اور پھر پوری ضلع سے اسلحہ جمع کرنے سمیت جنگ زدہ علاقوں میں مورچوں کی مسماری اور ٹل پاڑہ چنار روڈ پر نئی چیک پوسٹوں کی قیام سے امن کی امید کی کرن ابھر آئی تھی لیکن چند دنوں سے اپر کرم میں دو مقامی افراد سمیت ایڈشنل ایس ایچ او کے قتل کے بعد علاقے میں خوف کی فضا قائم ہوگئی ہے۔ جس کے بعد رات کے وقت لگاتار راکٹ حملوں اور فائرنگ کے واقعات ہو رہے ہیں۔

اپر کرم میں مقامی لوگوں کے مطابق یہ واقعات دونوں فریقین کے قتل کے واقعات کے بعد ہو رہے ہیں جس میں اربعین کے موقع بوشہرہ غریب امام بارگاہ پر نامعلوم سمت سے مبینہ راکٹ لانچر داغہ گیا جس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، مقامی لوگوں کے مطابق اگلے روز بوشہرہ گاؤں پر مبینہ راکٹ لانچر داغہ گیا اور اس طرح دوسرے روز بھی مبینہ طور پر راکٹ فائر کیا گیا لیکن پولیس ان راکٹ حملوں کی تصدیق نہیں کر رہی ہے۔

ان واقعات کے بعد سوشل میڈیا پر گالم گلوچ شروع ہوئی اور ضلعی حکومت نے بر وقت اقدامات اٹھاتے ہوئے 17 اگست کو ضلعی انتظامیہ، پولیس اور سیکیورٹی کی ثالثی سے شیعہ سنی اقوام کا مشترکہ جرگہ ہوا۔ دونوں فریقین نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ حالیہ کچھ دنوں سے درپیش صورتحال کا مل کر مقابلہ کرینگے اور شرپسند عناصر کی نفی کرکے علاقے کے لئے امن برقرار رکھے گے۔

اس موقع پر ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر عامر نواز کا کہنا تھا کہ کرم کا امن قربانیوں اور طویل جدوجہد کے بعد قائم ہوا ہے۔ کچھ عرصے سے شرپسند عناصر اس امن کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

جرگے ممبران کا کہنا تھا کہ ہم اپنے علاقے کے امن کو کسی صورت خراب نہیں ہونے دیں گے اور شرپسندوں کے خلاف حکومت کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔

اپر کرم کے علاقے بوشہرہ میں حالات کی خرابی اور حکومت دوبارہ جرگے پر تب مجبور ہوگئی جب علاقے میں دو مختلف واقعات میں دو افراد قتل ہوئے اور پولیس پر فائرنگ میں ایڈشنل ایس اچ او جاں بحق ہوگیا۔ کرم پولیس کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ 14 اگست کی صبح علاقہ نستی کوٹ میں دہشت گردی اور دیگر واقعات میں مطلوب شخص عابد حسین، جو تہران توری کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کو گرفتار کرنے کے لیے اُس کے گھر پر چھاپہ مارا۔ اُن کے مطابق چھاپے کے جواب میں گھر سے پولیس پر فائرنگ کی گئی جس میں اپر کرم تھانہ روضہ کے ایڈیشنل ایس ایچ او قیصر حسین جاںبحق ہوگئے۔

پولیس کے مطابق دوسرا واقعہ بھی 14 اگست کو ملیخیل میں پیش آیا جہاں مقامی لوگوں کے مطابق وہاں مسلح افراد نے ایک شیعہ شخص شعیب حسین کو فائرنگ کرکے شدید زخمی کردیا۔ تاحال یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ اُنہیں کس نے اور کیوں نشانہ بنایا۔

پولیس کے مطابق اس سے قبل 13 اگست کو اہلسنت کے گاؤں بوشہرہ کے علاقے سے ایک مقامی شخص قادر گل منگل کی لاش ملی تھی جسے گولیاں مار کر قتل کیا گیا تھا جو ایک دن پہلے نامعلوم افراد نے اغوا کیا تھا۔

اس سے ایک روز قبل 12 اگست کو علاقہ ڈنڈر صحرا میں مولا باغ کے قریب ایک چرواہے رجب علی نامی شخص کی لاش ملی تھی جس پر تشدد کرنے کے بعد قتل کیا تھا۔

پولیس کے مطابق ضلع کرم میں پچھلے ایک سال میں جائیدادوں پر تنازعات سمیت فرقہ ورانہ فسادات کے باعث مسلح جھڑپیں ہوچکی ہیں جن میں چار سو کے قریب افراد ہلاک اور سینکڑوں بے گھر ہوچکے ہیں۔ ضلع کرم سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن شاہین خان کا کہنا ہے کہ ضلع میں یہ تنازعات فرقہ وارانہ تشدد کی شکل اختیار کرلیتے ہیں جس میں بڑے پیمانے پر نقصان ہوتا ہے۔ لیکن پچھلے سال 12 ستمبر کو اپر کرم کونج علیزئی میں کانوائے پر حملہ،21 نومبر کو لوئر کرم اوچت میں کانوائے پر حملہ اور 22 نومبر سانحہ بگن بازار اور گاؤں کو جلانا تھا جس کے بعد ضلع کرم میں حالات بالکل تبدیل ہوکر نفرت اور بدامنی کی فضاء قائم ہوگئی ہے۔

سنٹرل کرم میں سیکیورٹی فورسز پر متعدد حملے ہوچکے ہیں جس کے بعد سنٹرل کرم کے مختلف علاقوں میں سیکیورٹی فورسز نے ٹارگٹڈ آپریشن بھی کیے ہیں۔ مقامی لوگوں کے مطابق سنٹرل کرم کے تور غر کے علاقے میں پچھلے ماہ 22 جون کو مبینہ گولہ باری کے نتیجے میں چار بچے جاں بحق ہو گئے تھے اس کے بعد سنٹرل کرم کے ووٹ نامی گاؤں میں رحیم نامی شخص کے گھر پر گولہ گرنے سے ایک بچہ جاں بحق اور چار زخمی ہوگئے تھے۔

اس حوالے سے مقامی سماجی کارکن عبدالخالق پٹھان کا کہنا تھا کہ ان کے جسم اتنے بُری طرح برباد ہو گئے تھے کہ وہ بمشکل پہچانے جا رہے تھے، عبدالخالق پٹھان کے مطابق، کم از کم دس گولے فائر کیے گئے۔ ان میں سے ایک نے براہ راست بچوں کو نشانہ بنایا۔ان کا کہنا تھا کہ ایک اور گولا ایک مسجد میں گرا لیکن خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ باقی گولے کھلی جگہوں پر گرے۔

ان حملوں سے ضلع بھرکے عوام میں غم و غصے کی لہر دوڑی جس کے بعد غمزدہ خاندانوں اور قبائلی بزرگوں نے بچوں کی باقیات کو ضلع کے صدر مقام پاڑہ چنار لے جا کر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا اور انصاف کا مطالبہ کیا۔ اس احتجاجی مظاہرے کی قیادت عبدالخالق پٹھان کر رہے تھے۔

احتجاج کرنے والوں نے غیر جانبدار تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ عبدالخالق پٹھان نے پوچھا کہ ‘ان کا جرم کیا تھا؟ ہمیں بتائیں تاکہ ہم اپنے باقی بچوں کی حفاظت کر سکیں۔’

اس کے بعد 9 جولائی کو سنٹرل کرم ووٹ گاؤں میں گھر پر بارودی گولہ گرنے سے ایک بچہ جاں بحق اور چار افراد زخمی ہوگئے تھے۔ جس کے خلاف بھی مقامی لوگوں نے سنٹرل کرم سمیت لوئر کرم میں بھی احتجاجی مظاہرے کرائے اور حکومت سے امن کی بحالی کا مطالبہ کیا۔

ان واقعات سے چند ہفتے پہلے اسی تحصیل میں گوازہ ٹاپو کلے میں نامعلوم سمت سے گولہ باری کے نتیجے میں ایک خاتون جان سے گئی تھی۔

یہ حملے کوہاٹ معاہدے کی شرائط کے باوجود ہوئے، جس میں 30 مئی تک غیر قانونی ہتھیاروں کی حوالگی کا مطالبہ کیا گیا تھا تاکہ طویل مدتی امن کو یقینی بنایا جا سکے۔

کوہاٹ معاہدے کے مطابق ضلع کرم میں شعیہ سنی فسادات میں جنگ زدہ علاقوں میں موجود مورچوں کو مسمار کرنے کے ساتھ مرحلہ وار اسلحہ جمع کیا گیا۔ مورچیں مسمار کمیٹی کے ممبر شاہد خان کا کہنا ہے کہ ضلع کرم میں چھوٹے بڑے تقریبا 320 بینکرز مسمار کئی گئی ہے۔ اس کے علاہ جن گاؤں کے درمیان جنگ لڑی گئی تھی حکومت نے ان سے اسلحہ بھی جمع کرایا ہے۔

ضلع کرم کے تحصیل اپر کرم کے ایک شیعہ اکثریتی سرحدی گاؤں پیوڑ شرمکھیل میں لکڑیاں جمع کرنے والے چار افراد بارودی سرنگوں کے دھماکے میں ہلاک ہوگئے جبکہ چار دیگر زخمی ہوئے ہیں۔ ابتدائی طور پر پاراچنار کے ایک ہسپتال میں علاج کے بعد زخمیوں کو بعد میں پشاور کے ایک طبی مرکز منتقل کر دیا گیا۔

قبائلی بزرگوں نے ان حملوں کی سخت مذمت کرتے ہوئے فوری تحقیقات اور ذمہ داروں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔

کوہاٹ میں کرم امن معاہدے کے بعد مشیر اطلاعات خیبر پختونخوا بیرسٹر سیف نے ایک بیان میں کہا تھا کہ علاقے میں امن و امان کی بحالی کیلئے 400 اہلکاروں کی بھرتی اور نئی چیک پوسٹوں سمیت دو ایف سی پلاٹون تعینات ہوگی۔ جس پر عملدرآمد کرتے ہوئے ٹل پاڑہ چنار روڈ پر نئی چیک پوسٹ بھی قائم کی گئی ہے اور پولیس کے ساتھ ایف سی اہلکار بھی تعینات کئے گئے ہیں۔ ان اقدامات کے بعد ٹل پاڑہ چنار شاہراہ ہر قسم کے کیلئے آمدورفت سمیت افغانستان کے ساتھ تجارت کیلئے خرلاچی بارڈر بھی کھول دیا گیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود علاقے میں مکمل امن کی بحالی کی کوئی یقین نہیں کرسکتا۔

علاقے میں بدامنی کے خلاف دیگر قبائلی اضلاع کے طرح ضلع کرم میں بھی امن مارچ کا اہتمام کیا گیا جس میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی اور علاقے میں امن کی بحالی کا مطالبہ کیا۔ اس دوران مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ علاقے میں امن کی بحالی کا کام ریاست کی ہے اور ریاست ان کے علاقوں میں فوری طور پر سنجیدگی کے ساتھ امن کی کوششوں کو تیز کرے۔

ان تمام اقدامات کے باوجود سوشل میڈیا سمیت مختلف مقامات پر ضلع کرم کے عوام امن کی ابتر صورتحال کے بارے میں اظہار رائے پیش کر رہے ہیں۔ سنٹرل کرم سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن امجد خان کا کہنا ہے پچھلے ایک سال سے ضلع کرم کے مختلف مقامات پر ناخوشگوار واقعات رونما ہوتے ہیں جس کی وجہ سے مقامی لوگ ذہنی بیمار بن چکے ہیں۔ جبکہ امن کے خیر حوا بھی محفوظ نہیں ہیں۔ گزشتہ ماہ صدہ بازار میں امن مارچ کرنے والے منتظم اور سماجی کارکن خواجہ ناہید کو مقامی پولیس نے گرفتار کیا تھا جس کو بعد میں رہا کیا گیا۔

سماجی کارکنان اور امن پاسون کے منتظمین کا کہنا ہے کہ ایک طرف علاقے میں بدامنی سے لوگوں بے چین ہیں جبکہ دوسری جانب امن کے نعرے لگانے کے بدلے پولیس گرفتاری کرتے ہیں۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ایک سال سے حکومت امن کی بحالی کیلئے مختلف حکمت عملی اپنا رہے ہیں، ٹل پاڑہ چنار روڈ کی مکمل طور پر کھولا ہونے کے اطلاع کررہے ہیں لیکن اس کے باوجود اکثر علاقے میں ناخوشگوار واقعات ہونے کے بعد روڈ بند ہوتا ہے جس سے پوری ضلع مفلوج ہوتا ہے۔

ضلع کرم میں جگہ جگہ نئے چیک پوسٹوں کی قیام، پوری ضلع سے اسلحہ جمع کرنے اور لوئر کرم میں فوجی آپریشن کے باوجود پچھلے ایک سال سے بدامنی کی مختلف واقعات سمیت مختلف مقامات پر سیکورٹی فورسز پر حملے ہوچکے ہیں جس میں متعدد افراد جان سے گئے ہیں۔  دیرپا امن کا حصول اب بھی دور لگتا ہے۔

متعلقہ خبریں

مزید پڑھیں