رزمک 1998ء
گاڑی مکین سے نکل کر میرعلی کی جانب رواں دواں تھی۔ باہر وزیرقبائل بیرونی دنیا سے قطعی عاری اپنی دھن میں مگن تھے۔ ہر جگہ سرخ پھولوں اور زرد پگڑیوں کا راج تھا۔ جوان بندوق بازو پر لٹکائے جگہ جگہ ٹولیوں کی شکل میں پھر رہے تھے۔ کبھی کبھی کوئی غور سے میری طرف دیکھنے لگتا۔ ایک چیز میں نے محسوس کی کہ ہر کوئی ہر کسی کو جانتا تھا۔ ایسے میں باہر سے آیا ہوا میں صاف غیر مقامی نظر آجاتا تھا۔ مہمان نوازی البتہ سر چڑھ کر بول رہی تھی۔ آدھے گھنٹے تک تو سلام دعا ختم نہیں ہو ئی۔ میں شمالی وزیرستان سے ہوتا ہوا شیوہ میں صحافی فدا وزیر کے ہاں پہنچا(بہت بعد میں ایک دفعہ جب ملاقات ہوئی تو اسے یادآیا) اور یہ سوال بھی کیا کہ میں اس وقت قبائلی علاقوں میں کیا کر رہاتھا۔ تب میں نے ان کو بتایا کہ یونیورسٹی میں مرحوم سہیل قلندر کی وجہ سے پریس کلب آنا جانا تو لگا رہتا لیکن ایک بار مرحوم اجمل خٹک ایک سیمینار سے خطاب کر رہے تھے۔ اجمل بابا کے ساتھ ہمارے خاندانی مراسم تھے۔ وہ اس خطے میں گریٹ گیم پر اتھارٹی سمجھے جاتے تھے۔ اس نے اپنے مخصوص انداز میں خطاب کرتے ہوئےکہا “اے قبائل تمہیں نہیں معلوم تمہارے اوپر کتنے بھاری دن آنے والے ہیں۔ تمہیں لگ پتا جائےگا۔ آسمان کے ارادے ٹھیک نہیں ہیں ایک خون کا سیلاب ہے جو میں دیکھ رہا ہوں۔” یقین مانیں اس وقت مجھے قبائلی علاقوں کے بارے میں ککھ پتانہیں تھا۔ مطلب بس “علاقہ غیر” کے نام سے واقف تھا اور زیادہ سے زیادہ باجوڑ، مہمند اور خیبر تک ہی آنا جانا لگا رہتا تھا۔ لیکن میں نے تو ایساکچھ بھی نہیں دیکھا۔ پھر سوچا کہ ہوسکتا ہے وزیرستان میں کچھ نظر آئے۔ لیکن مجھے ایسا کچھ نہیں ملا بلکہ خیبر کے مقابلے میں وزیرستان زیادہ پرسکون اور خوشیوں سے بھرا نظر آیا۔
میرام شاہ 2008ء
تقریباَ دس سال بعد بہت کچھ بدل چکا تھا۔ گزشتہ تین سالوں میں ہر ماہ مجھے وزیرستان آنا پڑتا تھا۔ اب یہ وہ وزیرستان نہیں تھا۔ اجمل بابا کی پیشن گوئی نائن الیون کے بعد پوری ہو چکی تھی۔ اب میں وزیرستان میں اتنا گھل مل چکا تھا کہ کوئی وزیر سمجھنے لگا تو کوئی محسود اور ملنےپر یکدم کہنے لگتے "توسیئ ماسید یئ” یعنی آپ محسود ہو۔ روزوشب مولانا نیک زمان، مولانا گل رمضان، ملک خان مرجان، کامران وزیر اور ایسےسینکڑوں ساتھیوں کے ساتھ گزرنے لگے۔ بازار میں ازبک تاجک جنگجوؤں سے مڈبھیڑ بھی ہوجاتی لیکن عرب جنگجو ہمیں دیکھ کر کنی کتراتے تھےیقین مانیئے ہم بھی مسکرا کر رخ بدل دیتے تھے۔ میرعلی بازار میں میرعلی کے چاول صبح جنگجوؤں کے بیچ میں کھانا معمول بن چکا تھا۔ پتیسی اڈہ پر خاصہ دار کیسی جو بھائی ناصر داوڑ کے خاص الخاص تھے سےچائے پینا لازم تھا۔ حالانکہ ایک بزرگ کہتے تھے کہ اندھیرے ایسے ہیں کہ دن کے وقت بھی لالٹین جلا کر چلنا پڑتا ہے پھر بھی پتا نہیں کیوں مجھےکوئی خوف نہیں تھا۔ ایک بار تو کچھ صحافیوں کے ہمراہ جنوبی وزیرستان کے صدر مقام وانا میں مرحوم سیلاب محسود کے ہمراہ ازبک جنگجووں کے نرغے میں آ گئے تھے۔ وانا بازار میں خبر پھیل چکی تھی کہ ازبک جنگجووں نے قبرستان کے قریب تمام صحافیوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کے لیے محاصرہ کر لیا ہے اور یقین مانیئے ہم قبرستان میں بیٹھ کراپنے مرنے کی ہیڈلائنز بنا کر زور زور سے ہنس رہے تھے اور ایک دوسرےکا مذاق اڑا رہے تھے۔ خوف کا کوئی احساس ہی نہیں ہو رہا تھا بلکہ آج بھی ان صحافی ساتھیوں کو یاد ہوگا کہ وہ وقت کتنا عجیب تھا۔ ایک وقت میں تو سراروغہ، مکین اور رزمک میرے پک نک پوائنٹ تھے۔یوسفی جب غوگے(گاڑی) دوڑاتا تھا تو ایسے لگتا کہ جیسے یہ میری سلطنت ہے۔رزمک کی سہ پہر کی بارش آج بھی یادوں کے دروازوں پر دستک دے کر بے چین کر دیتی ہے۔ قاری حسین، بیت اللہ اور حکیم اللہ سب کو جانتا تھا اور سب کو مختلف مواقع پر ڈانٹ کی حد تک چپ کرایا تھا۔ غالبا عقل کی کمی یا جوانی کا جوش کوئی پرواہ ہی نہیں تھی کیونکہ یہ میرا وزیرستان تھامیں سب کو جانتا تھا۔
وزیرستان 2017ء
حالات نے پلٹا کھا لیا تھا۔ اس دفعہ وزیرستان کی شکل ہی بدل چکی تھی۔ میرعلی بازار وہ میرعلی بازار نہیں رہا تھا۔ پتیسی اڈہ کو سمجھنےکے لیے گاڑی سے اتر کر چلتے چلتے دیکھنا پڑا کہ وہ پتیسی اڈہ آخر گیاکہاں اور یہ کیسے ممکن ہے۔ میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا اور ناصر داوڑ قہقہ مار کر مسلسل ہنس رہا تھا۔ میرام شاہ پر جھٹکے پاگل پن کی حد تک لگے۔ ایسے لگا اسلام آباد میں پھر رہا ہوں۔ غلام خان بارڈر رات کو سولرکے قمقموں سے جگمگا رہا تھا۔ آدھی رات کو حسو خیل پل پر چہل قدمی کرنا ایسا تھا کہ جیسے ایک خواب میں جی رہا ہوں۔ لوگ پرانی کہانیوں تک کو بھول چکے تھے۔ میں پرانے کرداروں کو یاد کراتا تو وہ یاد کرنے کی کوشش کرتے۔ میرعلی تا میرام شاہ سڑک ایسی شاندار کہ جیسے موٹر وےاور اب جوان مرتے بھی تھے تو اسی روڈ پر ویلنگ کرتے ہوئے حادثات کاشکار ہوتے۔ سب کچھ ٹھیک تھا لیکن اتنا ٹھیک تھا کہ خواب کا گماں ہونےلگا۔میری پہچان کے بہت کم لوگ تھے۔ آپریشن کی وجہ سے سب تتر بتر ہوگئے۔ اکثریت یا وزیرستان چھوڑ چکی تھی یا ملک ہی چھوڑ دیا تھا۔ بازاروہ بازار نہیں رہے تھے لوگ وہ لوگ نہیں رہے تھے۔ یہ وزیرستان بنایا گیاتھا۔ یہ وہ وزیرستان نہیں تھا۔
ضلع وزیرستان 2018ء
فاٹا کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ شمالی اور جنوبی وزیرستان اب اضلاع بن چکےہیں اور خیبرپختونخواہ میں ضم ہو چکے ہیں۔ لیکن ان کو اضلاع بنانے والےفنڈز کہیں غائب ہو چکے ہیں۔ پولیٹیکل ایجنٹ کے دفتر میں ڈپٹی کمشنربیٹھتا ہے اور کہیں ایک دفتر میں ڈی پی او بیٹھتا ہے۔ایف سی آر تو نہیں ہے لیکن جرگوں سے معاملات چلائے جا رہے ہیں۔ سو سال سے زائد کانظام ختم ہونا چاہیئے تھا لیکن اس طرح ختم ہو گا کبھی سوچا نہیں تھا۔ پھر نقاب پوش وادی میں آئے۔ لوگ سرشام دکانیں بند کرنے لگے۔ ایک بار پھر ٹارگٹ کلنگ کا سانپ وزیرستان میں پھرنے لگا ہر شخص خوفزدہ کہ آج کس کو ڈسے گا۔ کابل میں طالبان لوٹ آئے وزیرستان بھی حافظ گل بہادر کے گروپ کا نشانہ بننے لگا۔ بالاخر ایک بار پھر طالبان سڑکوں پرنمودار ہوئے۔یہ وہ طالبان بھی نہیں جو افغانستان میں امریکہ اور پاکستان میں امریکہ کے اتحادیوں کے خلاف لڑ رہے تھے۔طالبان بھی بدل گئے ہیں۔میں ان میں بھی کسی کو نہیں جانتا تھا۔
وزیرستان 2025ء
“ساتھی صحافی وزیرستان جا رہے ہیں۔ آپ پشاور آجائیں تو ہم اکھٹےوزیرستان جائیں گے۔” فون کی دوسری طرف سے کہا گیا۔
“کونسا وزیرستان؟ میں اس وزیرستان کو نہیں جانتا۔ یہ میرا وزیرستان نہیں ہے۔ سوری میں نہیں جا پاؤنگا۔” یہ کہہ کر فون بند کر دیا اور سوچنے لگا کہ اگر یہ میرا وزیرستان نہیں ہے تو پھر میرا وزیرستان کہاں گیا۔۔۔