پاک فوج کی کامیاب کاروائی میں گرفتار عالمی دہشت گرد کو ازبکستان میں سزا

پاکستانی فورسز کی جانب سے ایک بڑی کامیاب عالمی سطح کے آپریشن میں گرفتار ازبک عسکریت پسند کمانڈرعابد ساپاروف کو ازبکستان کی عدالت نے سزا سنا دی ہے۔ واضح رہے کہ ازبکستان، روس، آذربائیجان،کرغیزستان اور ایران کے سیکیورٹی ادارے تمام تر کوششوں کے باوجود عابد ساپاروف کو گرفتار کرنے میں ناکام رہے۔ ان کو پاکستانی سیکیورٹی اداروں نے اسی سال جنوری میں گرفتار کرکے ازبکستان کے حوالے کیا تھا۔

ازبکستان کی ایک ضلعی عدالت نے کاشکادریا صوبے سے تعلق رکھنے والے 46 سالہ ازبک شہری عابد ساپاروف کو 16 سال قید کی سزا سنائی ہے کیونکہ اس نے داعش میں شمولیت اختیار کی اور 2022ء میں ازبک سرحدی شہر پر راکٹ حملے میں ملوث رہا تھا۔

عابدساپاروف کی اسلامی عسکریت پسند گروہوں کے ساتھ وابستگی راکٹ حملے سے تقریباً ایک دہائی قبل شروع ہوئی اور تفتیش کاروں کے جمع کردہ شواہد سے اس ازبک شہری کے جہادی بننے کے سفر کی کہانی کافی دلچسپ اورسنسنی خیز ہے۔

بہ ظاہر تو ساپاروف کی شدت پسندی کی ابتدا سینکڑوں وسطی ایشیائی شہریوں کی ایک عام کہانی ہے جو مشرق وسطیٰ یا افغانستان میں عسکریت پسند گروہوں میں شامل ہوئے ہیں۔

لیکن ساپاروف کی کہانی کا آغاز روس سے ہوا۔ ساپاروف جون 2013ء میں روس کے شہر اوفا میں ہجرت کرکے مزدوری کرنے گیا۔ اس نے انٹرنیٹ پر عسکریت پسند گروہوں جیسے کہ اسلامی تحریک ترکستان اور “جہادچیلر” یا“جہادی عناصر” کے تیار کردہ آڈیو اور ویڈیو مواد دیکھا۔ اوفا میں جہادیوں کے ارکان سے رابطے کے بعداگست 2013ء میں وہ روس سے باکو چلا گیا اوروہاں سے ایران کے صوبے زاہدان پہنچا۔ اس طرح مارچ 2014ء میں افغانستان عبور کرکے پاکستان کے قبائلی ضلع وزیرستان کی تحصیل میرعلی پہنچا۔

ازبک میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیرستان میں عابد ساپاروف نے اسلامی تحریک ترکستان میں شمولیت اختیار کی تھی۔

اس گروہ کا نام اس حوالہ سے کچھ عجیب ہے کہ عابدساپاروف کے حوالہ سے میڈیا کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ جب ساپاروف اوفا میں تھا تو اسے ملنے والا کچھ عسکری مواد طاہر یولداش کے نظریات پر مبنی تھا۔

یاد رہے کہ قاری طاہر یلداشیف نے اسلامی تحریک ازبکستان (آئی ایم یو) نامی عسکریت پسندتنظیم کی بنیاد رکھی اور اگست 2009ء میں پاکستان میں امریکی ڈرون حملے میں مارے جانے تک اس کی قیادت کی۔ آئی ایم یو کا مقصد ازبک حکومت کا تختہ الٹنا تھا اور اس نے 1999ء اور 2000ء تک ازبکستان میں مسلح حملے کیے۔ آئی ایم یو طالبان کا اتحادی تھا اور 2001ء کے آخر میں امریکی زیر قیادت فوجی کارروائیوں کے آغاز پر افغانستان میں موجود تھا۔امریکی بمباری، امریکہ حمایتی ازبک تاجک ملیشیاء کی کاروائیوں کے باعث آئی ایم یو کوافغانستان میں بھاری نقصان اٹھانا پڑا اور عرب مسلح جنگجوؤں کی طرح قاری طاہر یلداشیف سمیت گروہ کے باقی ماندہ ارکان سرحد پار پاکستان فرار ہونے میں کامیاب ہوگئےتھے۔

پاکستان پہنچنے کے بعد ساپاروف نے تربیتی کیمپوں میں حصہ لیا اور بعد میں ایک عسکریت پسندوں کے لیئے ایک “سپلائی سینٹر” میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

ازبک میڈیارپورٹس کے مطابق 2016ء کے آغاز میں اسلامی تحریک ترکستان تقسیم ہوگئی۔ اس دوران پاک فوج نے شمالی وزیرستان میں ایک بھرپور آپریشن کا آغاز کیا۔ساپاروف نے شمالی وزیرستان سے بھاگ کر افغانستان کے جلال آباد میں اس وقت فعال دولت اسلامی فی ولایت خراسان یعنی داعش کے عناصر سے ہاتھ ملایا اور ان کے ہمراہ رہے۔لیکن حقیقتا اگست 2015ء میں آئی ایم یو جو اس وقت تک پاکستان میں سرگرم تھااسی وقت اس کے رہنما عثمان غازی نے داعش کی بیعت کر لی تھی اوروہی آئی ایم یو میں تقسیم کی وجہ بن چکی تھی۔ آئی ایم یو کا ایک حصہ غازی کے ساتھ افغانستان چلا گیا (جہاں زیادہ تر زابل اور ہرات صوبوں میں لڑائی میں مارے گئے)جبکہ باقی زیادہ تر شمال مشرقی افغانستان چلے گئے۔

تاہم باوجود آپریشنز کے داعش کی جلال آباد میں کسی حد تک موجودگی اگست 2021ء میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے تک برقرار رہی۔اور افغان طالبان بھی روس، آذربائیجان، ازبکستان کی طرح عابد ساپاروف کو گرفتار کرنے اور مارنے میں بری طرح ناکام رہے۔

ازبک تفتیش کاروں کے مطابق ساپاروف نے 2016 سے 2024 تک داعش خراسان میں ایک بھرپور اور فعال کردار ادا کیا۔ ساپاروف جلال آباد، کندز، مزار شریف، اور کابل میں حملوں کی منصوبہ بندی میں ملوث تھا۔ اس کے زیرکمان گروہ افغان حکومت، غیر ملکی فوجیوں، اور طالبان کے خلاف مختلف ادوار میں لڑا۔

ساپاروف داعش خراسان کے لیئےبھرتی، میڈیا پروپیگنڈا، اور دہشت گرد حملوں کی تیاری تک میں ملوث رہا تھا۔

ازبک پراسیکیوٹرز کے مطابق ساپاروف نے جون 2022ء میں کابل میں سکھ مندر پر بمباری کی منصوبہ بندی میں مدد کی۔ بم ایک تاجک شہری نے نصب کیا تھا جو “ابو محمد تاجیکی” کے نام سے جانا جاتا تھا۔گو کہ افغان طالبان نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا لیکن عابد عابدساپاروف کے قریب بھی نہیں پہنچے۔ یہاں تک بھی سنا گیا کہ ان کو پیغام بجھوایا گیا تھا کہ وہ دنیا بھر میں جہاں جانا چاہتے ہیں جو بھی کرنا چاہتے ہیں کریں لیکن افغانستان سے نکل جائیں۔

عابدساپاروف ستمبر 2022ء میں کابل میں روسی سفارتخانے پر بمباری میں بھی ملوث تھا۔ اس دہشت گرد حملے میں خودکش حملہ آور ایک ازبک شہری تھا جو “ابراہیم” کے نام سے جانا جاتا تھا۔ وہ حملے سے دو دن پہلے ساپاروف کے ساتھ کابل کے ایک فلیٹ میں رہااور ساپاروف نے مبینہ طور پر “ابراہیم” کو سفارتخانے تک پہنچایا۔ اس حملے کے بعد روس، ازبکستان اور افغان طالبان مل کر عابد ساپاروف کا توڑ کرنے میں لگ گئے۔ لیکن عابد ساپاروف انتہائی بے خوفی سے خطے کے ان ممالک میں سفر کرتا رہا۔ اس دوران اس کی ملاقات کرغیزستان کے ایک کمانڈر طارق سے ہوئی۔ عابد ساپاروف نے اس کے لیئے بھی کام شروع کردیا یوں کرغیز حکومت کے نشانہ پر بھی آیا۔ طارق کا ایک سوتیلا بیٹا “زبیر” کے نام سے تھا۔ عابد ساپاروف نے اس کو بھی تربیت دی۔

ازبکستان کے لیےعابد ساپاروف کا سب سے سنگین دہشت گردی کا عمل سکھ مندر اور روسی سفارتخانے کے بم دھماکے تھے۔کیونکہ ایک ازبک شہری کی حیثیت سے روس کا ازبکستان پر خاصہ دباؤ تھا۔ 5 جولائی 2022ء کو کمانڈرطارق کے تیار کردہ پانچ راکٹ افغانستان سے دریائے آمو کے پار ازبک سرحدی شہر ترمذ پر داغے گئے۔ازبک پراسیکیوٹرز نے شواہد پیش کیے کہ ساپاروف نے ترمذ پر داغے گئے راکٹوں کو ”ذاتی طور پر ذخیرہ کیا، منتقل کیا، اور تیار کیا”۔

راکٹوں سےسرحدی املاک کو نقصان پہنچا تھا لیکن آبادی میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ تاہم اس حملے سے قبل اپریل میں بھی اسی سال افغانستان سے ترمذ پر راکٹ داغنے کی ایک ناکام کوشش ہوئی تھی۔ دس راکٹ داغے گئے لیکن سب دریا میں جا گرے۔پراسیکیوٹرز نے البتہ عابدساپاروف کاتعلق اس ناکام حملے سے نہیں جوڑا گیا۔

کچھ برس بعدجب افغان طالبان کی جانب سے عابد ساپاروف کے ساتھیوں کے قریب پہنچنے لگے۔ کیونکہ ان مذکورہ تمام ممالک نے افغان طالبان کو مکمل اینٹیلیجنس رپورٹ فراہم کردی تھی تاہم عابد ساپاروف افغان طالبان کو چکمہ دے کر پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ تاہم وہ پاکستان میں مختلف پاکستان مخالف تنظیموں کے ہاں پناہ لیتا رہا۔ پاکستان نے اس کی زندہ گرفتاری کے لیئے ایک خصوصی ٹیم تشکیل دی۔ اس طرح اس ٹیم کی بدولت ستمبر 2024ء میں پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے عابدساپاروف کے 20 ساتھیوں کو حراست میں لیا جن میں اندیجان، نمنگان اور سر دریا سے ازبکستان کے شہری شامل تھے۔ جنوری 2025ء میں بالاخر عابد ساپاروف کو حراست میں لیا گیا اور ازبکستان کے حوالے کیا گیا۔

ازبکستان سے آمدہ رپورٹس کے مطابق عابدساپاروف نے “جزوی طور پر” اپنے جرم کا اعتراف بھی کیا اور اپنے اعمال پر توبہ کی ہے۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق ”اس نے عدالت سے درخواست کی کہ اس بات کو مدنظر رکھا جائے کہ اس کا کوئی پچھلا مجرمانہ ریکارڈ نہیں ہے اور اس کا ایک خاندان اور تین بچے ہیں۔”

پراسیکیوٹرز کے شواہد کی کتنی درستگی ہےاس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔لیکن تمام تر عدالتی کاروائی میں عابد ساپاروف کی وابستگی آئی ایم یو سے زیادہ ترکستان کے حوالہ سے سرگرم تنظیموں کے لیئے فعالیت کے حوالہ سے کیا گیا۔

متعلقہ خبریں

مزید پڑھیں