جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے صاحبزادے مولانا اسجد محمود کو چند روز قبل نیشنل ہائی وے N55 پر یارک پولیس اسٹیشن کی حدود کے قریب مسلح افراد نے گن پوائنٹ پر روک لیا تھا۔ یہ واقعہ تقریباً شام 4 بجے پیش آیا جب محمود لکی مروت میں ایک جنازے میں شرکت کے لیے جا رہے تھے۔
اطلاعات کے مطابق تقریباً 30 سے 40 مسلح افراد جن میں سے کچھ کے پاس راکٹ لانچر بھی تھے، نے اسجد محمود کے تین گاڑیوں پر مشتمل قافلے کو روکا لیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ اپنے امیر کے حکم پر عمل کر رہے تھے اور پورے قافلے کو اپنے ساتھ چلنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
محمود کے سیکیورٹی گارڈز نے مزاحمت کی اور اپنی بندوقیں نکال لیں جس کے نتیجے میں 15 سے 20 منٹ تک کشیدہ صورتحال برقرار رہی۔ مسلح گروپ نے بالآخر اپنے امیر سے رابطہ کرنے اور اجازت ملنے کے بعد قافلے کو آگے بڑھنے دیا ہے۔
اس واقعے نے علاقے میں سیکیورٹی کی ناکامیوں کے بارے میں سنگین خدشات کو جنم دیا ہے۔ اسجد محمود کے چچا سینیٹر مولانا عطا الرحمٰن نے منگل کو یہ معاملہ سینیٹ میں اٹھایا تھا۔
جے یو آئی نے ایک بیان میں کہا کہ انہیں امن کے لیے لڑنے اور دہشت گردی کے خلاف ریاست کی حمایت کرنے کی سزا دی جا رہی ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ اس واقعے نے خیبرپختونخوا میں سیکیورٹی کی صورتحال پر سنگین سوالات اٹھائے ہیں اور صوبے کے جنوبی اضلاع میں حکومتی رٹ خاص طور پر کمزور دکھائی دیتی ہے۔
2025 میں پاکستان کے چاروں صوبوں میں جے یو آئی سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں کو کئی حملوں کا سامنا کرنا پڑا ہے جن میں سے کئی واقعات کے نتیجے میں مقامی رہنماؤں کی ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں۔