خیبر پختونخوا حکومت کا کرم میں شرپسندوں کے خلاف سخت کارروائی کا فیصلہ

خیبر پختونخوا حکومت نے ضلع کرم میں ایک اور آپریشن کی تیاری کر لی ہے۔ یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا جب پیر کے روز امدادی قافلے پر نامعلوم افراد کے حملے سے 6 افراد جاں بحق جبکہ 15 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ جاں بحق افراد میں سیکیورٹی فورسز کے 5 اہلکار شامل ہیں۔

اتوار کے روز ضلع ہنگو کے علاقے ٹل سے کرم کے لیے تقریباً 60 ٹرک روانہ کیے گئے تھے جن میں خوراک اور ادویات موجود تھیں۔ تاہم صرف 9 ٹرک کرم پہنچنے میں کامیاب ہوئے جبکہ کم از کم 20 ٹرکوں کو واپس ٹل جانا پڑا۔

پولیس کے مطابق واپس جانے والے زیادہ تر ٹرک راستے میں لوٹ لیے گئے جبکہ کئی ٹرکوں کو لوٹنے کے بعد جلا دیا گیا۔

عسکریت پسندوں کے پہلے حملے میں ایک ٹرک ڈرائیور اور ایک سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہو گئے جبکہ تین ڈرائیورز بھی زخمی ہوئے۔ سیکیورٹی فورسز نے ہیلی کاپٹر کی مدد سے جوابی فائرنگ کی جس میں کم از کم 8 افراد، جن میں دو خواتین بھی شامل تھیں، زخمی ہوئے۔

 پھنسے ہوئے ٹرکوں اور سیکیورٹی اہلکاروں کو بچانے کے لیے سیکیورٹی فورسز نے آپریشن شروع کیا۔ اسی اثنا میں شرپسندوں نے سیکیورٹی فورسز پر ایک اور حملہ کر دیا۔ اس حملے میں سیکیورٹی فورسز کی تین گاڑیاں جلا دی گئیں جبکہ 4 سیکیورٹی اہلکار جاں بحق اور4 زخمی ہو گئے۔

خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف نے کہا کہ حکومت نے حملہ آوروں کے خلاف سخت کارروائی کا فیصلہ کیا ہے جنہوں نے قافلے پر حملہ کیا اورٹرکوں کو لوٹا۔ انہوں نے مزید کہا کہ کارروائی ان علاقوں میں ہوگی جہاں قافلے پر حملہ ہوا تھا۔

یہ قافلہ گزشتہ ایک ہفتے میں اپر کرم کے لیے روانہ ہونے والا پہلا قافلہ تھا اور اسے بھاری نفری کے ساتھ محفوظ بنایا گیا تھا۔ پیر کے روز خیبر پختونخوا کابینہ کے اجلاس میں بتایا گیا کہ ضلع میں ضروری اشیاء کی کوئی کمی نہیں ہے۔

کرم گزشتہ چار ماہ سے شیعہ اور سنی قبائل کے درمیان مسلح تصادم کی وجہ سے ملک کے باقی حصوں سے منقطع  ہے۔ ضلع میں امدادی قافلوں پر ٹل-پاراچنار ہائی وے پر کئی بار حملے ہو چکے ہیں جو ضلع میں داخل ہونے والی مرکزی سڑک ہے۔ حکومت کی جانب سے جرگے کے فیصلے کے بعد ضلع میں بنکرز کو مسمار کرنے اور ہتھیاروں کو ضبط کرنے کے آپریشن کے باوجود امن وامان کے صورتحال ابھی تک غیر یقینی ہے۔

متعلقہ خبریں

مزید پڑھیں