امید کی نئی کرن: مہمند سے پورے پاکستان تک ایک تعلیمی انقلاب کی داستان

ضلع مہمند کی تحصیل صافی کے پہاڑی سلسلے میں ایک چھوٹی سی بستی میں صبح کا سورج ابھی طلوع ہو ہی رہا تھا کہ اسکول کے صحن میں بچوں کی قہقہے گونجنے لگے۔ چند برس قبل اسی جگہ دہشت گردوں نے بارودی مواد سے اسکول کی عمارت کو نشانہ بنایا تھا۔ دیواریں زمیں بوس ہو گئی تھیں، چھت گر گئی تھی اور بچوں کے خواب ملبے تلے دب گئے تھے۔ لیکن آج یہ جگہ دوبارہ زندگی کا منظر پیش کر رہی ہے۔ پاک فوج نے نہ صرف اسکول کو نئے سرے سے تعمیر کیا ہے بلکہ اسے پہلے سے کہیں زیادہ خوبصورت، مضبوط اور جدید بنا دیا ہے۔

پانچویں جماعت کا طالب علم سید احمد اپنی نئی یونیفارم پہنے کلاس میں بیٹھا مسکرا رہا ہے۔ اس کی آنکھوں میں مستقبل کی چمک ہے۔ اس نے بتایا، "مجھے لگا تھا کہ اب میری پڑھائی ختم ہو گئی ہے۔ میں کبھی ڈاکٹر نہیں بن سکوں گا مگر جب اسکول دوبارہ بنا تو میرے سارے خواب لوٹ آئے۔ اب میں ضرور ڈاکٹر بنوں گا اور اپنے لوگوں کی خدمت کروں گا۔”

اس کے والد جمال الدین جو خود کبھی اسکول نہیں جا سکے اپنے بیٹے کا ہاتھ تھامے کھڑے ہیں۔ ان کی آنکھیں نم ہیں۔ وہ بولے، "میں تو ان پڑھ رہ گیا مگر اپنے بچوں کو جاہل نہیں دیکھ سکتا۔ یہ اسکول ہمارے بچوں کا مستقبل ہے۔ اللہ پاک فوج کا بھلا کرے کہ انہوں نے ہمارے بچوں کے خوابوں کو دوبارہ زندگی بخشی۔”

یہ صرف مہمند کے ایک گاؤں کی نہیں بلکہ یہ پورے پاکستان کی کہانی ہے۔

آج پاکستان ایک عظیم تعلیمی انقلاب کے سنگم پر کھڑا ہے۔ حکومت نے "ایجوکیشن ایمرجنسی 2024” اور "نیشنل ایجوکیشن پالیسی 2025” کے تحت یہ عہد کیا ہے کہ 2030 تک ایک کروڑ بچوں کو اسکولوں میں واپس لایا جائے گا۔ اس وقت ملک میں دو کروڑ بیس لاکھ سے دو کروڑ ساٹھ لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں جن میں زیادہ تر لڑکیاں شامل ہیں۔ بلوچستان اور سندھ جیسے صوبوں میں یہ صورتحال سب سے زیادہ سنگین ہے لیکن اب تبدیلی کا عمل شروع ہو چکا ہے۔

بینظیر تعلیمی وظائف پروگرام کے ذریعے 2024 میں 14.8 ملین بچوں کو 117 ارب روپے کی امداد فراہم کی گئی۔ پنجاب کے 50 اضلاع میں مشروط نقد امداد کا پروگرام کامیابی سے جاری ہے۔ عالمی بینک کے تعاون سے سیلاب سے متاثرہ 500 اسکولوں کی بحالی ہو رہی ہے جس سے چالیس لاکھ بچوں کو فائدہ پہنچے گا۔ سندھ میں پانچ ہزار اسکولوں میں طلبہ کی حاضری کا ڈیجیٹل نظام نافذ کیا جا رہا ہے۔ یونیسف، عالمی شراکت داری برائے تعلیم، ملالہ فنڈ اور دی سٹیزنز فاؤنڈیشن جیسے ادارے بھی دور دراز کے علاقوں تک تعلیم کی روشنی پہنچانے میں ہاتھ بٹا رہے ہیں۔

ملک بھر کے 35 ہزار مدارس کو قومی نصاب سے جوڑنے کا تاریخی منصوبہ بھی جاری ہے جس کے نتیجے میں پچیس لاکھ طلبہ اب جدید تعلیم بھی حاصل کر رہے ہیں۔

حکومت نے تعلیم کے لیے ایک ٹریلین روپے مختص کیے ہیں جو کہ مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا چار فیصد بنتا ہے! یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ یہ ایک قوم کا اپنے بچوں اور اپنے مستقبل سے کیا گیا سچا وعدہ ہے۔

ماہر تعلیم عمر اورکزئی کہتے ہیں کہ "یہ محض اسکولوں کی تعمیر نہیں، بلکہ یہ ایک قوم کو دوبارہ زندہ کرنے کے مترادف ہے۔ جب ایک بچی تعلیم حاصل کرتی ہے تو پورا خاندان اور سارا معاشرہ بدل جاتا ہے۔ پاکستان ‘سی پیک’ کے دوسرے مرحلے کے لیے ہنر مند نوجوان تیار کر رہا ہے۔ تعلیم کا یہ انقلاب یقیناً معاشی انقلاب بھی لائے گا۔”

متعلقہ خبریں

مزید پڑھیں