دوحہ مذاکرات: کیا پاکستان اور افغان طالبان کشیدگی کم کر پائیں گے؟ اعلیٰ سطحی بات چیت آج سے قطر میں شروع

پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان کشیدگی کم کرنے کی کوششوں کے سلسلے میں آج ہفتے کے روز قطر کے دارالحکومت دوحہ میں مذاکرات کا آغاز ہو رہا ہے۔ افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے تصدیق کی ہے کہ دونوں فریقوں کے وفود آج دوحہ پہنچیں گے۔

افغان وفد میں سخت گیر رہنما شامل

ذرائع کے مطابق افغان وفد میں افغانستان کے قائم مقام وزیر دفاع ملا یعقوب، جنہیں پاکستان کے حوالے سے سخت گیر موقف رکھنے والا سمجھا جاتا ہے اور انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ ملا واثق سمیت دیگر ارکان شامل ہیں۔

پاکستان کی جانب سے ان مذاکرات کے بارے میں کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا، لیکن ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان کے اعلیٰ حکام بھی ان مذاکرات میں شریک ہوں گے۔

بھارت کی قربت اور دہشت گردی بنیادی نکتہ

پاکستان اور افغانستان کے امور پر نظر رکھنے والے صحافی ریاض خان نے مذاکرات کے حوالے سے کہا: "دونوں ممالک کے درمیان بہت اچھے تعلقات رہے ہیں لیکن سرحد پر حملوں، ٹی ٹی پی میں افغان شہریوں کی شمولیت اور افغانستان کے بھارت کے ساتھ بڑھتی ہوئی قربت کی وجہ سے دونوں ممالک کے تعلقات خراب ہو رہے ہیں۔”

ریاض خان نے مزید کہا کہ بھارت براہ راست پاکستان پر حملہ نہیں کر سکتا اس لیے وہ پراکسي کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کرتا ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ دوحہ معاہدے میں بھی افغان طالبان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔

خان کے مطابق، "لہٰذا مذاکرات کا بنیادی نکتہ یہی دکھائی دیتا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ان مذاکرات سے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔” انہوں نے دونوں ہمسایہ ممالک کے خراب تعلقات کو نقصان دہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے تجارت کے شعبے میں بھی مسائل بڑھیں گے۔ انہوں نے زور دیا کہ مسائل کو گفت و شنید کے ذریعے ہمیشہ کے لیے حل کیا جائے۔

بھارت کی وجہ سے تعلقات میں خرابی

تعلقات میں خرابی کی ایک اہم وجہ بھارت کی بڑھتی ہوئی قربت کو قرار دیا جا رہا ہے۔ طالبان حکومت کے وزیر خارجہ امیر خان متقی 9 اکتوبر کو بھارت کے دورے پر گئے تھے۔ محققین کا کہنا ہے کہ یہ اقتدار میں آنے کے بعد افغان طالبان کے وزیر خارجہ کا بھارت کا پہلا دورہ تھا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت پاکستان کا ازلی دشمن ہے اور افغانستان جیسے ہمسایہ ملک کا بھارت کے ساتھ ملاقات پاکستان کے تعلقات پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہے۔

فتنہ الخوارج میں افغان شہریوں کی شمولیت

پاکستان میں دہشت گردی میں افغان شہریوں کی شمولیت بھی تعلقات میں کشیدگی کی بڑی وجہ ہے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ احمد شریف چوہدری نے کہا تھا کہ رواں سال تقریباً 160 افغان شہری فتنہ الخوارج کے ساتھ مل کر ہلاک ہوئے ہیں۔ پاکستان بارہا کہتا رہا ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے اور دہشت گرد حملوں کی منصوبہ بندی وہیں کی جاتی ہے۔

وزیر دفاع خواجہ آصف نے اپنے موقف میں کہا کہ ‘افغانستان بھارت کا پراکسی بن گیا’

پاکستان کے وزارت دفاع نے طالبان کے 2021 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے پاکستان میں امن اور افغانستان سے دراندازی کے لیے کی گئی کوششوں اور اس کے نتائج کا تفصیلی جائزہ پیش کیا ہے:

کوششیں: وزیر خارجہ کا کابل دورہ: 4، وزیر دفاع اور آئی ایس آئی کا دورہ: 2، نمائندہ خصوصی کے دورے: 5، سیکریٹری کے دورے: 5، نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر کا دورہ: 1، جوائنٹ کوآرڈینیشن کمیٹی میٹنگز: 8، بارڈر فلیگ میٹنگز: 225، احتجاجی مراسلے: 836، ڈیمارش: 13۔

نتائج: 2021 سے اب تک 3844 شہید (شہری، فوجی، اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سمیت)، دہشت گردی کے واقعات: 10347۔

وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ پانچ سال میں ان کوششوں اور قربانیوں کے باوجود کابل سے مثبت ردعمل نہیں آیا۔ بیان کے مطابق "اب افغانستان بھارت کا پراکسی بن گیا ہے۔ یہ دہشت گردی کی جنگ بھارت، افغانستان، اور ٹی ٹی پی نے مل کر پاکستان پر مسلط کی ہے۔”

وزارت کا سخت موقف ہے کہ "کابل کے حکمران جو اب بھارت کی گود میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں، کل تک ہماری پناہ میں تھے اور ہماری سرزمین پر چھپتے پھرتے تھے۔”

مہاجرین کی واپسی اور سخت مؤقف

وزارت دفاع نے مزید کہا کہ "پاکستان اب کابل کے ساتھ ماضی کی طرح تعلقات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ پاک سرزمین پر موجود تمام افغان باشندوں کو اپنے وطن واپس جانا ہوگا، کیونکہ اب کابل میں ان کی اپنی حکومت/خلافت ہے۔”

آخر میں واضح کیا گیا کہ "اب احتجاجی مراسلے یا امن کی اپیلیں نہیں ہوں گی، کابل وفود نہیں جائیں گے۔ دہشت گردی کا منبع جہاں سے بھی ہوگا، اسے بھاری قیمت ادا کرنی ہوگی۔”

مذاکرات کے طویل ہونے کا امکان

محققین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی وزارت خارجہ نے افغان طالبان کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے بارے میں تفصیل سے موقف پیش کیا ہے کہ مذاکرات کے کئی مراحل ہو چکے ہیں، لیکن اس کے باوجود سرحد پر حملے اور افغانستان کی سرزمین کا استعمال جاری ہے۔

اسد یوسفزئی کے مطابق، "ان مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے لگتا ہے کہ مذاکرات طویل ہوں گے اور پائیدار نتائج تک پہنچنے کے لیے وقت درکار ہوگا۔”

پاکستان کا بنیادی مطالبہ

پاکستان سے ایک اعلیٰ سطحی وفد، جس کی قیادت وزیر دفاع کر رہے ہیں، آج دوحہ میں افغان طالبان کے نمائندوں کے ساتھ مذاکرات کرے گا۔ بات چیت کا محور افغانستان سے پاکستان کے خلاف سرحد پار دہشت گردی کو ختم کرنے کے فوری اقدامات اور پاک-افغان سرحد پر امن و استحکام بحال کرنا ہوگا۔

پاکستان کسی تصادم کا خواہشمند نہیں ہے لیکن افغان طالبان حکام سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ عالمی برادری سے کیے گئے اپنے وعدوں کا احترام کریں اور پاکستان کے جائز سیکیورٹی خدشات کو دور کرنے کے لیے دہشت گرد گروہوں، بشمول ایف اے کے/ٹی ٹی پی اور ایف اے ایچ/بی ایل اے کے خلاف قابل تصدیق اقدامات کریں۔

پاکستان قطر کی ثالثی کی کوششوں کی قدر کرتا ہے اور امید کرتا ہے کہ یہ مذاکرات خطے میں امن و استحکام میں معاون ثابت ہوں گے۔

متعلقہ خبریں

مزید پڑھیں