ایران کے خلاف اسرائیل کے حملوں میں شدت آنے کے ساتھ تل ابیب میں رہنماؤں نے ایران میں حکومت کی تبدیلی کے امکان کا اظہار کیا ہے۔ ایسی خبریں بھی سامنے آئی ہیں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل کی جانب سے ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای پر حملے کی کوشش کو ویٹو کر دیا ہے۔ موجودہ صورتحال میں ایران میں قیادت کیسے تبدیل ہوتی ہے اس عمل کا جائزہ لینا قابل غور ہے۔
ایران میں حکومت کی تبدیلی کا امکان ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جو ملک کے منفرد سیاسی ڈھانچے سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔ کسی بھی فرضی صورتحال کا تجزیہ کرنے کے لیے سپریم لیڈر کے انتخاب کے عمل کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ ایران کا آئین، خاص طور پر آرٹیکل 107 اور 111 اس طریقہ کار کو واضح کرتا ہے۔ لیکن نظام کی غیر شفافیت کسی بھی خلل کے نتائج کی پیش گوئی کو قیاس آرائی پر مبنی بناتی ہے۔
انتخاب کا رسمی عمل:
ایران میں سب سے بڑا عہدہ یعنی سپریم لیڈر کا انتخاب مجلس خبرگان رہبری (اسمبلی آف ایکسپرٹس) کرتی ہے جو 88 اسلامی اسکالرز پر مشتمل ایک باڈی ہے جسے ایرانی عوام منتخب کرتے ہیں لیکن اس کی جانچ گارڈین کونسل کرتی ہے۔ یہ اسمبلی ایسے جانشین کا انتخاب کرتی ہے جس میں مخصوص خصوصیات ہوں جیسا کہ اسلامی علمیت، سیاسی اور سماجی آگاہی، انتظامی صلاحیتیں، اور دینداری۔
سپریم لیڈر کی وفات، استعفیٰ یا برطرفی کی صورت میں ایک عبوری قیادت کونسل جس میں عام طور پر صدر، عدلیہ کے سربراہ اور گارڈین کونسل کا ایک رکن شامل ہوتا ہے جو ایک مستقل جانشین کے انتخاب تک اقتدار سنبھال لیتی ہے۔
تاہم،اس عمل کا ایک بڑا عنصر یہ ہے کہ مجلس خبرگان رہبری کے اندر غیر شفاف بحث و مباحثے اور غور و فکر عوامی نہیں ہوتے ۔
گارڈین کونسل، صدر اور عدلیہ سب معاون کردار ادا کرتے ہیں لیکن صرف مجلس خبرگان رہبری ہی رہبر کا انتخاب یا انہیں برطرف کر سکتی ہے۔