ایران کے صوبہ سیستان و بلوچستان میں بدامنی سامنے آ رہی ہے، جہاں مبینہ طور پر ایرانی باغی بلوچ ایرانی افواج کی نقل و حرکت کو روک رہے ہیں جس کے پیچھے موساد-را گٹھ جوڑ کا شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
جاری اسرائیل-ایران تنازعہ کے دوران ایران میں موساد-را کے آپریشنز پاکستان کے لیے بلوچستان میں ممکنہ پھیلاؤ پر تشویش کا باعث بن رہے ہیں۔
نیتن یاہو کی ایران میں حکومت کی تبدیلی کی آوازیں صیہونی ایجنڈے کو ظاہر کرتی ہیں جو پراکسی عناصر اور نفسیاتی آپریشنز کا فائدہ اٹھا رہا ہے۔
ایران میں بھارتی ایجنٹ جو بظاہر موساد کے لیے کام کر رہے ہیں، علاقائی عدم استحکام میں را اور موساد کے درمیان بڑھتے ہوئے گٹھ جوڑ کی نشاندہی کرتے ہیں جو تشویشناک ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ، واشنگٹن میں قائم میمری (MEMRI)، جو را (RAW) اور موساد (Mossad) روابط کے لیے جانی جاتی ہے، نے کالعدم بلوچ لبریشن آرمی سے منسلک مشیر میر یار بلوچ کے ساتھ بلوچستان اسٹڈیز پروجیکٹ شروع کیا ہے۔
را اور بلوچ دہشت گرد گروپس جیسے بی ایل اے اور بی آر اے ایران کے اندر آپریشنل موجودگی برقرار رکھنے کے لیے جانے جاتے ہیں جو سرحد پار تخریب کاری کو ممکن بناتے ہیں۔
ایران اور پاکستان میں خواتین کے حقوق کی تحریکوں کو ہائبرڈ جنگ کے آلات کے طور پر بیرونی طور پر استعمال کیا جا رہا ہے تاکہ ریاستی بیانیے کو چیلنج کیا جا سکے۔
مئی 2025 کی پاک-بھارت جنگ کے دوران بی ایل اے کے حملوں اور بھارتی حمایت کی اپیل نے را کے ساتھ اس کے آپریشنل روابط کو مکمل طور پر بے نقاب کیا ہے۔
ایران میں بھی اسی طرح کا پراکسی پلے بک اب نظر آ رہا ہے، جہاں بلوچ دہشت گردوں نے ریاستی اہداف پر موساد کی مبینہ حمایت سے حملہ کیا ہے۔
موساد اور را تیزی سے ڈیجیٹل جنگ اور غلط معلومات کا استعمال کر رہے ہیں تاکہ بدامنی کو بھڑکایا جا سکے اور ریاستی اداروں پر اعتماد کو ختم کیا جا سکے۔
ایران اور پاکستان میں فرقہ وارانہ تقسیم کو اندرونی دراڑیں گہری کرنے اور قومی ہم آہنگی کو کمزور کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
پاک-ایران سرحد کے پار بلوچوں کے درمیان نسلی اور نظریاتی روابط علاقائی عدم استحکام میں اضافہ کر سکتے ہیں اگر ان پر توجہ نہ دی جائے۔
ایران میں بلوچ عسکریت پسندی میں اضافہ، جس کو بیرونی تخریب کار عناصر بشمول را اور موساد نے ہوا دی ہے جو کہ پاکستان کی سرحدی استحکام کے لیے براہ راست خطرہ ہے جس کے لیے سرحد پر فعال نگرانی اور انٹیلی جنس ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔
بلوچ دہشت گرد سرگرمیوں سے نمٹنے کے لیے پاکستان کا ایران کے ساتھ ماضی کا تعاون موثر رہا ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ ایران سے ایسے سرگرم گروہوں کو سختی سے نمٹنے کے لیے مسلسل تعاون طلب کیا جائے، جو پہلے ایران میں پناہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
دریں اثنا، جیش العدل نے ایران کے عوام کو مخاطب کرتے ہوئے ایک بیان جاری کیا ہے، جس میں ان سے ایرانی ریاست کے خلاف اپنی جدوجہد میں شامل ہونے کی اپیل کی گئی ہے۔ یہ گروہ اپنے اہم دشمن کو ایران میں موجودہ حکومت سمجھتا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے حملے حکومت کو نشانہ بنا رہے ہیں، نہ کہ ریاست کو۔
پاکستان کو اپنی خودمختاری معاندانہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے تمام گٹھ جوڑ سے بچانے کا عزم غیر متزلزل ہے۔