دریا کابل کا تنازع: ایک نازک سفارتی چیلنج

پاکستان اور افغانستان کے درمیان پانی کے معاملے میں ایک نازک صورتحال ابھر رہی ہے جس کا محور دریا کابل ہے۔ یہ دریا نہ صرف زمینی اور ماحولیاتی اہمیت رکھتا ہے بلکہ دونوں ممالک کے سیاسی تعلقات میں بھی ایک حساس مسئلہ بن چکا ہے۔ کابل دریا کا نظام پاکستان کے لیے نہ صرف زراعت اور توانائی کا ذریعہ ہے بلکہ ایک جغرافیائی اور سفارتی پیچیدگی بھی پیدا کر رہا ہے،کیونکہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان پانی کی تقسیم کے حوالے سے کوئی باضابطہ معاہدہ موجود نہیں ہے۔

افغانستان میں ڈیموں کی تیز رفتار تعمیر جس میں بیرونی سرمایہ کاری بھی شامل ہے خاص طور پر بھارت کی شمولیت، خطے کے لیے ایک خطرے کی گھنٹی بجا رہی ہے۔ یہ ڈیم پاکستان میں پانی کی مقدار، زراعت، بجلی کی پیداوار اور غذائی تحفظ کو متاثر کر سکتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان اس نظام میں اَپ سٹریم پوزیشن اور ڈاؤن سٹریم پوزیشن دونوں پر فوائد حاصل ہے جس سے اسے کچھ ہائیڈرولوجیکل فائدہ ملتا ہے، لیکن ساتھ ہی اس کی زرعی اور توانائی کی ضروریات کے لیے خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق پاکستان ہر سال تقریباً 17 ملین ایکڑ فٹ پانی کابل دریا سے حاصل کرتا ہے جو خیبر پختونخوا کے کھیتوں کی پانی کی ضروریات کا تقریباً 20 فیصد پورا کرتا ہے۔ اگر افغانستان میں منصوبہ بند ڈیم مکمل ہو گئے تو یہ پانی تقریباً 3 ملین ایکڑ فٹ کم ہو سکتا ہے، جو خیبر پختونخوا اور پنجاب میں فصلوں، پانی کے ذخائر اور بجلی کی پیداوار کو متاثر کرے گا۔ اس کے ساتھ موسمیاتی تبدیلی بھی پانی کے بہاؤ میں غیر یقینی صورتحال پیدا کر رہی ہے۔

پاکستان کے لیے سب سے بڑا سیاسی چیلنج یہ ہے کہ افغانستان پانی کے بنیادی ڈھانچے کو سیاسی یا اقتصادی دباؤ کے طور پر استعمال کر سکتا ہے۔ بھارت کی شمولیت اس معاملے کو مزید جغرافیائی سیاسی بنا دیتی ہے کیونکہ وہ افغان ڈیموں اور زرعی منصوبوں میں تکنیکی اور مالی مدد فراہم کر رہا ہے۔

اب جب ایک طرف سفارتی کشیدگی عروج پر ہو اور تجارت بند ہو گئی ہو، تو ایسے ماحول میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا افغانستان بھی بھارت کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پانی کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرے گا یا ماضی کے تجربات سے سبق سیکھ کر اس پر سنجیدگی سے بات کرے گا۔

 بھارت کی بڑھتی ہوئی شمولیت: پاکستان میں تشویش

بھارت کی افغانستان میں واٹر مینجمنٹ اور ڈیم تعمیرات میں مدد کی تجدیدی پیشکش نے پاکستان میں تشویش پیدا کر دی ہے جہاں ماہرین کو خدشہ ہے کہ نئی دہلی کا یہ کردار علاقائی پانی کے تنازعات کو مزید گہرا کر سکتا ہے اور اسلام آباد-کابل تعلقات کو مزید خراب کر دے گا۔

بھارت کے وزارتِ آب وسائل (Ministry of Water Resources) نے حال ہی میں افغانستان کی "پائیدار واٹر مینجمنٹ” کی کوششوں کی حمایت کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے جس میں ہائیڈرو الیکٹرک منصوبے بھی شامل ہیں۔ یہ بیان افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کے نئی دہلی دورے کے بعد سامنے آیا جس میں دونوں ممالک نے انفراسٹرکچر اور وسائل کی ترقی میں دوطرفہ تعاون پر زور دیتے ہوئے مشترکہ اعلامیہ جاری کیا تھا۔

بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے دوبارہ تصدیق کی کہ بھارت "افغانستان کی خودمختاری، علاقائی سالمیت اور آزادی” کے لیے پرعزم ہے لیکن اس اعلان کو پاکستان میں بے چینی سے دیکھا جا رہا ہے کیونکہ دونوں پڑوسیوں کے درمیان سرحدی تناؤ اور ایک دوسرے پر الزامات کا سلسلہ عروج پر ہے۔

پاکستان اور افغانستان کئی سرحدی دریاؤں میں شریک ہیں جن میں کنڑ اور کابل دریا شامل ہیں جو خیبر پختونخوا کے زرعی علاقوں کو سیراب کرنے کے بعد دریائے سندھ میں شامل ہو جاتے ہیں۔ دہائیوں کے باہمی انحصار کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان کوئی باضابطہ واٹر ٹریٹی (جیسے پاکستان اور بھارت کے درمیان انڈس واٹر ٹریٹی) موجود نہیں، اس لیے یہ معاملہ انتہائی حساس ہے۔

یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب پاکستان کابل پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان (TTP) کے دہشت گردوں کو پناہ دینے کا الزام لگا رہا ہے جبکہ افغان طالبان حکومت اسلام آباد پر ڈرون حملوں سے افغان فضائی حدود کی خلاف ورزی کا الزام عائد کر رہی ہے۔ اس عدم اعتماد کے ماحول میں پانی ایک نیا ممکنہ تنازع بن کر ابھر رہا ہے۔

بھارت پانی کو سیاسی ہتھیار بنا رہا ہے؟

خیبر پختونخوا ایرگیشن ڈپارٹمنٹ کے سابق سپرنٹینڈنٹ انجینئر عبدالولی یوسفزئی نے خبردار کیا کہ افغانستان کے واٹر پراجیکٹس میں بھارت کی بڑھتی ہوئی شمولیت پاکستان کی آبی تحفظ (Water Security) کے لیے سنگین چیلنج پیدا کر سکتی ہے۔

یوسفزئی نے خبر کدہ کو بتایا: "یہ کوئی نیا منصوبہ نہیں کرزئی حکومت کے دور سے ہی بھارت افغانستان کے لال پور علاقے میں واٹر سٹوریج بنانے کا منصوبہ رکھتا ہے۔ بھارت پانی کے مسئلے کو سیاسی ہتھیار بنانا چاہتا ہے بالکل ویسے ہی جیسے اس نے پاکستان کے خلاف پانی کو دباؤ کا ذریعہ بنایا ہے۔”

انہوں نے وضاحت کی کہ افغانستان کے پاس فی الحال زراعت کے لیے دو چھوٹے ریزروائر ہیں لیکن بڑے ڈیم بنانے کی تکنیکی اور مالی صلاحیت نہیں ہے۔ "بھارتی مدد سے یہ منصوبے پاکستان کو بلیک میل کرنے کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں۔ اگر افغانستان پانی کا بہاؤ روکے تو پاکستان کی زراعت کے لیے بہت بڑا مسئلہ پیدا ہو جائے گا جو ورسک ڈیم اور چترال سے نکلنے والے چینلز پر منحصر ہے جو افغانستان سے گزرتے ہیں۔”

یہ پانی کا نہیں، سیاسی مسئلہ ہے؟

ایکسپریس ٹریبیون کے مصنف شہاب اللہ یوسفزئی کا کہنا ہے کہ موجودہ بحث کو دونوں طرف سے مبالغہ آمیز اور سیاسی رنگ دے دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ "افغانستان سے پاکستان میں خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے راستے 9 سے 10 واٹر چینلز آتے ہیں لیکن صرف کنڑ دریا کو سیاسی بنا دیا گیا ہے۔” "یہ پانی کا مسئلہ کم اور سیاسی مسئلہ زیادہ ہے۔ پاکستان افغانستان پر فضائی حملوں، مہاجرین پالیسی اور تجارت سے دباؤ ڈالتا ہے، جبکہ افغانستان واٹر پراجیکٹس کو جوابی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے۔”

انہوں نے مزید کہا کہ افغانوں کی طرف سے چھوٹے ریزروائر (جیسے خوست میں) بنانے کی حالیہ کوششیں ناکام ہو چکی ہیں کیونکہ انجینئرنگ کی صلاحیت محدود ہے۔ "افغانستان کے لیے ان دریاؤں کو روکنا یا بند کرنا تکنیکی طور پر ناممکن ہے۔ تاہم بغیر واٹر ٹریٹی کے چھوٹی سی غلط فہمی بھی علاقائی تنازع میں تبدیل ہو سکتی ہے۔”

کنڑ ڈیم نیا تنازع کھڑا کر دے گا؟

پشاور سے تعلق رکھنے والے صحافی تیمور خان نے نشاندہی کی کہ کنڑ دریا پر ڈیم بنانے کا افغان دعویٰ براہِ راست پاکستان کے ایرگیشن نیٹ ورک کو متاثر کر سکتا ہے۔

تیمور خان نے وضاحت کی ہے کہ "کنڑ دریا دراصل پاکستان کے چترال سے نکلتا ہے اور ارندو کے راستے افغانستان میں داخل ہوتا ہے۔ خیبر پختونخوا میں تقریباً 32,000 ہیکٹر زرعی زمین ورسک ڈیم کے کینال سسٹم سے سیراب ہوتی ہے جو اسی پانی پر منحصر ہے اور آخر میں دریائے سندھ میں شامل ہو جاتا ہے۔”

انہوں نے خبردار کیا کہ بہاؤ میں رکاوٹ ڈالنے کی کوئی بھی کوشش بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی ہو گی۔ "اگر افغانستان ڈیم بناتا ہے تو اسے بین الاقوامی واٹر لاء کے تحت پاکستان کے لیے مناسب ڈاؤن سٹریم بہاؤ یقینی بنانا ہو گا۔”

تیمور خان نے کہا کہ پاکستان کے پاس تکنیکی متبادل موجود ہیں جیسے چترال دریا کو اپر دیر میں پنجکورہ دریا کی طرف موڑنا، لیکن زور دیا کہ سفارتکاری ہی واحد قابلِ عمل حل ہے۔ "اس مسئلے کو مذاکرات اور علاقائی تعاون سے حل کرنا ہو گا، نہ کہ تصادم یا بھارت کی سیاسی سازش میں پھنس کر۔”

بڑھتا ہوا واٹر ڈپلومیسی چیلنج

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغان انفراسٹرکچر میں بھارت کی شمولیت علاقے میں اثر و رسوخ بڑھانے اور پاکستان کی پوزیشن کا مقابلہ کرنے کی وسیع تر حکمت عملی کی عکاسی کرتی ہے۔ افغانستان کے لیے یہ شراکت درکار تکنیکی مہارت اور بجلی/سیراب کے نظام بہتر کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔

تاہم ماہرین متنبہ کر رہے ہیں کہ بغیر باضابطہ واٹر شیئرنگ فریم ورک کے سیکورٹی تناؤ، سیاسی عدم اعتماد اور بیرونی مداخلت کا امتزاج مشترکہ دریاؤں کو علاقائی مقابلہ آرائی کا نیا محاذ بنا سکتا ہے۔

ایک تجزیہ کار نے بتایا کہ "پانی جنوبی ایشیا میں تیزی سے اگلی جیو پولیٹیکل فالٹ لائن بنتا جا رہا ہے۔ اگر اسے غلط طریقے سے ہینڈل کیا گیا تو یہ صرف افغانستان-پاکستان تعلقات ہی نہیں بلکہ پورے علاقائی توازن کو بھی خطرے میں ڈال دے گا جسے بھارت شکل دینے کی کوشش کر رہا ہے۔”

متعلقہ خبریں

مزید پڑھیں