پاکستان اور چین کے درمیان آہنی دوستی کا عظیم منصوبہ چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) اب اپنی دوسری فیز میں داخل ہو کر ایک وسیع صنعتی، معاشی اور سماجی انقلاب کی بنیاد رکھ رہا ہے۔ یہ منصوبہ محض انفراسٹرکچر، بندرگاہوں اور توانائی کے منصوبوں تک محدود نہیں رہا بلکہ خصوصی اقتصادی زونز (ایس ای زیڈ) کے وسیع نیٹ ورک کے ذریعے پاکستان کو عالمی تجارت، مینوفیکچرنگ اور جدید ٹیکنالوجی کا ایک ناگزیر مرکز بنا رہا ہے۔
ملک بھر میں نو خصوصی اقتصادی زونز کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے جن میں سے سندھ کا دھابیجی ایس ای زیڈ اور خیبر پختونخوا کا رشکائی ایس ای زیڈ فلیگ شپ ماڈلز کے طور پر تیزی سے ابھر رہے ہیں۔ یہ زونز ٹیکس فری، ڈیوٹی فری، ایک ونڈو آپریشن اور عالمی معیار کے انفراسٹرکچر کی سہولیات کے ساتھ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کر رہے ہیں جس کا ہدف 2030 تک 5 سے 10 ارب ڈالر کی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) حاصل کرنا ہے۔ یہ زونز نہ صرف صنعتی ترقی کو فروغ دیں گے بلکہ علاقائی توازن، روزگار کی فراہمی، ٹیکنالوجی ٹرانسفر اور ماحولیاتی پائیداری کو بھی یقینی بنائیں گے۔
سی پیک سے معاشی طاقت کا خواب
سرحد چیمبر آف کامرس کے سابق صدر زاہد شینواری نے سی پیک فیز II میں کام کی تیزی پر بے پناہ خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اسے پاکستان کے لیے ایک تاریخی خبر قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ "سی پیک پر کام کی یہ رفتار بین الاقوامی مارکیٹ تک ہماری رسائی کو کئی گنا بڑھا دے گی، جس کے نتیجے میں پاکستان کی فیکٹریوں میں تیار کردہ اشیاء بشمول ٹیکسٹائل، انجینئرنگ گڈز اور کیمیکلز بیرونی منڈیوں میں زیادہ مقدار میں فروخت ہوں گی۔ اس سے نہ صرف فارن ایکسچینج ریزرو میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا بلکہ ملکی معیشت کو ایک مستحکم بنیاد ملے گی۔”
انہوں نے مزید وضاحت کی کہ جب پاکستان عالمی مارکیٹ میں اپنی مضبوط جگہ بنا لے گا تو مقامی انڈسٹری میں توسیع ہوگی، نئی فیکٹریاں قائم ہوں گی اور ہر شعبہ – زراعت سے لے کر ٹیکنالوجی تک پاکستان کو ایک طاقتور معاشی قوت بنانے کا سبب بنے گا۔ شینواری نے سی پیک کے انفراسٹرکچر اور انرجی پراجیکٹس کی کامیابی کو ایک مکمل معاشی انقلاب لانے کا ضامن قرار دیا، جس سے "پوری دنیا کا دھیان پاکستان کی طرف مبذول ہوگا، ہماری ایکسپورٹس میں حصہ ڈرامائی طور پر بڑھے گا، اور پاکستان جنوب ایشیا کا صنعتی لیڈر بن کر ابھرے گا۔”

سی پیک ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت
معروف معاشی ماہر ریاض احمد نے سی پیک کو پاکستان کی معاشی ترقی کی ریڑھ کی ہڈی قرار دیا جو ملک کی تقدیر بدلنے والا منصوبہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ "اگر گوادر اور کراچی بندرگاہوں تک تیز رفتار راستے مکمل ہو جائیں، خصوصی اقتصادی زونز فعال ہو جائیں اور انرجی کا بحران مستقل حل ہو جائے تو پاکستان نہ صرف چین بلکہ پوری دنیا – یورپ، مشرق وسطیٰ، وسطی ایشیا اور افریقہ کے ساتھ تجارتی روابط کو نئی بلندیوں پر لے جائے گا۔”
انہوں نے موجودہ جیو پولیٹیکل صورتحال کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے ساتھ راستے بند ہونے کے باوجود پاکستان پر کوئی منفی اثر نہیں پڑا، کیونکہ کراچی بندرگاہ کے ذریعے ہم پہلے ہی عالمی تجارت سے جڑے ہوئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا: "سی پیک کی کامیابی سے گوادر بندرگاہ مکمل طور پر فعال ہو جائے گی تو ہم دنیا کے کئی ممالک تک اپنا تجارتی سامان – خام مال سے لے کر ویلیو ایڈڈ پروڈکٹس تک – کم لاگت اور کم وقت میں پہنچا سکیں گے۔ یہ نہ صرف ایکسپورٹس میں اضافہ کرے گا بلکہ درآمدات کی لاگت بھی کم کرے گا، جس سے تجارتی خسارہ کم ہوگا۔”
مقامی صنعتوں کی جدت
خیبر پختونخوا کے ضلع مردان کے ماربل فیکٹری مالک احمد علی نے راشکئی اور مردان اکنامک زونز کی تعمیر کو صنعتی انقلاب کی علامت قرار دیا۔ انہوں نے کہا: "مردان اکنامک زون اور مہمند ماربل زون کے قیام سے یہاں ایک نئی صنعتی لہر آئے گی۔ فی الحال ہم ماربل کو بارود کے ذریعے نکالتے ہیں، جس میں 80 فیصد قیمتی پتھر ضائع ہو جاتا ہے – یہ نہ صرف معاشی نقصان ہے بلکہ قدرتی وسائل کی بربادی بھی ہے۔”
انہوں نے امید ظاہر کی کہ چین کی طرف سے اکنامک زونز کی تعمیر کے ساتھ جدید ٹیکنالوجی بشمول لیزر کٹنگ، واٹر جیٹ مشینیں اور آٹومیشن – متعارف ہوگی۔ "اس سے ضائع ہونے والا ماربل اور دیگر قیمتی معدنیات جیسے اونکس، گرینائٹ اور جیڈ بچ جائیں گے، جو نہ صرف مقامی صنعتوں کو مضبوط کریں گے بلکہ ایکسپورٹ مارکیٹ میں پاکستان کی پوزیشن کو بہتر بنائیں گے۔”
وزیراعظم شہباز شریف کا چین دورہ اور مضبوط عہد
رواں سال ستمبر میں وزیراعظم شہباز شریف کے چین دورے نے سی پیک کو نئی توانائی دی۔ انہوں نے کہا تھا کہ "پاکستان اور چین کے درمیان آہنی، ہر موسم کی اسٹریٹجک تعاون کی شراکت داری کو مزید مضبوط کرنے کا مشترکہ عزم ہے،” اور اس سلسلے میں "2024-2029 کے لیے مشترکہ ایکشن پلان پر دستخط ایک تاریخی اور اہم قدم ہے۔”
وزیراعظم نے حکومت کی اصلاحات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ "انتھک اصلاحاتی کوششیں امید افزا نتائج دے رہی ہیں، جو چین کی مضبوط حمایت اور اعتماد سے ممکن ہوئی ہیں۔” جون میں چین نے پاکستان کے فارن ایکسچینج ریزرو کو مستحکم کرنے کے لیے 3.4 ارب ڈالر کے قرضے رول اوور کیے۔ 2025 کے بیجنگ دورے میں وزیراعظم نے چینی سرمایہ کاروں کو سیکیورٹی کی مکمل گارنٹیز دیں، جس سے گرین ٹیکنالوجی، آئی ٹی کلسٹرز اور الیکٹرک وہیکلز میں نئی سرمایہ کاری کے دروازے کھل گئے۔

دھابیجی اور راشکئی اسپشل اکنامک زون: صنعتی تبدیلی کی علامت
نومبر 2025 تک سی پیک فیز II صنعتی کاری کو غیر معمولی تیزی دے رہی ہے۔
دھابیجی ایس ای زیڈ زون کراچی کے قریب 1,530 ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے اور پیٹروکیمیکلز، انجینئرنگ، لاجسٹکس، الیکٹرانکس اور فارماسیوٹیکلز پر توجہ مرکوز کر رہا ہے۔ یہاں 3 ارب ڈالر کی ایف ڈی آئی، 1 لاکھ براہ راست نوکریاں اور 50 ہزار بالواسطہ روزگار متوقع ہیں۔
فیز I کا انفراسٹرکچر (سڑکیں، بجلی، پانی، گیس) 70 فیصد مکمل ہو چکا ہے۔ 20 سے زائد انٹرپرائزز ڈیجیٹل پورٹلز کے ذریعے آن بورڈ ہو چکے ہیں اور 2026 کے وسط تک مکمل آپریشنز شروع ہو جائیں گے۔
سندھ کے چیف منسٹر نے اسے "سی پیک II کا پروپیلر” قرار دیا ہے۔ پورٹ قاسم کی قربت سے لاجسٹکس لاگت 30 فیصد کم ہوگی۔ یہ زون گرین گروتھ کا ماڈل ہے، جو الیکٹرک وہیکلز، سولر پینلز، سرکلر اکانومی اور واٹر ری سائیکلنگ پروجیکٹس کو فروغ دے گا، جو پاکستان کے ماحولیاتی عہدوں سے ہم آہنگ ہیں۔

راشکئی خیبر پختونخوا اسپشل اکنامک زون
یہ زون نوشہرہ کے قریب 1,000 ایکڑ سے زیادہ پر محیط ہے اور سٹیل، سیمنٹ، فوڈ پروسیسنگ، ٹیکسٹائل، آئی ٹی اور ماربل پروسیسنگ میں مہارت رکھتا ہے۔ یہاں 2 ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری، 50 ہزار نوکریاں اور پاکستان کا پہلا آپریشنل ایس ای زیڈ بننے کا اعزاز متوقع ہے۔
پشاور-کراچی موٹروے سے منسلک ہونے سے یہ شمالی ایکسپورٹ ہب بنے گا۔ چینی سرمایہ کاروں نے سنکیانگ سے پیٹروکیمیکل، انجینئرنگ اور آٹومیشن سیکٹرز کے لیے متعدد ایم او یوز پر دستخط کیے ہیں۔ یہ زون معدنیات کی ویلیو ایڈیشن پر فوکس کر کے وسائل کے ضیاع کو روکے گا۔

مشترکہ سہولیات اور روشن مستقبل کی جھلک
دونوں زونز 10 سالہ ٹیکس چھوٹ، کسٹمز ڈیوٹی استثنیٰ، 100 فیصد غیر ملکی ملکیت کی اجازت اور ایک ونڈو ریگولیٹری سسٹم پیش کر رہے ہیں۔ یہ اقدامات پاکستان کی مینوفیکچرنگ ایکسپورٹس کو سالانہ 10 ارب ڈالر تک بڑھائیں گے اور درآمدات کا بل 1 ارب ڈالر سالانہ کم کریں گے۔
ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک (اے آئی آئی بی) اور ایشین ڈیولپمنٹ بینک (اے ڈی بی) انفراسٹرکچر فنانسنگ میں مدد فراہم کر رہے ہیں۔ حکومت کی "آسان بزنس” انیشی ایٹو نے سرمایہ کاروں کی آن بورڈنگ کو مہینوں سے دنوں میں تبدیل کر کے شفافیت اور اعتماد کو بڑھایا ہے۔
پاکستان کا روشن مستقبل: نوکریاں، ٹیکنالوجی، پائیداری اور علاقائی توازن
یہ ایس ای زیڈ چین سے صنعتی منتقلی کے اینکر بن رہے ہیں جو مقامی مینوفیکچرنگ، آٹومیشن، رینیوایبل انرجی اور سمارٹ مینوفیکچرنگ کو فروغ دیں گے۔ 2030 تک 3 لاکھ براہ راست اور 10 لاکھ بالواسطہ نوکریاں پیدا ہوں گی جن میں نوجوانوں اور خواتین کی بڑی شرکت ہوگی۔ ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز، ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹس اور انجینئرنگ، آئی ٹی اور گرین ٹیکنالوجی میں خصوصی پروگرامز شروع کیے جا رہے ہیں۔
پاکستان جنوبی ایشیا کو وسطی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور یورپ سے جوڑ کر ایک عالمی تجارت کا مرکز بنے گا۔ سیکیورٹی چیلنجز اور زمین حاصل کرنے کی تاخیر جیسے مسائل کے باوجود، یہ زونز انفراسٹرکچر سے ایکسپورٹ لیڈ گروتھ کی طرف منتقلی کی علامت ہیں۔ اس کامیابی سے 2030 تک جی ڈی پی میں 5-7 فیصد اضافہ، اور پاکستان کا 2040 تک ٹریلین ڈالر اکانومی کا خواب حقیقت بنے گا۔