جمعرات کو ہندوستان اور افغانستان کے وزرائے خارجہ کا ایک ایسے وقت میں ٹیلی فونک گفتگو ہوئی ہے جب پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ایک باضابطہ جنگ ہوئی اور بعدازاں جنگ بندی پر دونوں ممالک راضی ہوئے ہیں۔
ہندوستان کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے اپنے ایکس اکاونٹ پر لکھا کہ ان کی افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی کے ساتھ اچھی گفتگو ہوئی اور انہوں نے پلوامہ واقعے کی مذمت کرنے پر ان کی تعریف کی ہے۔ تاہم، افغانستان کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں اس بات کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔
افغانستان کی وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ جے شنکر کے ساتھ بات چیت میں تجارت میں اضافے، سفارتی تعلقات، قیدیوں کی رہائی، ویزا پالیسیوں اور چاہ بہار بندرگاہ پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ ممبئی میں افغان قونصل خانے کے ایکس پیج پر پلوامہ یا پاکستان سے متعلق دیگر بات چیت کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔
اس سال اپریل میں، ہندوستان کی وزارت خارجہ میں افغانستان، پاکستان اور ایران ڈیسک کے ڈائریکٹر جنرل آنند پرکاش نے کابل کا دورہ کیا اور افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی سے ملاقات ہوئی ہے۔ افغان طالبان کی جانب سے جاری کردہ بیان میں بھی اس بات پر زور دیا گیا کہ بات چیت کا بنیادی مرکز تجارت رہا ہے ۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ افغانستان کے حوالے سے ہندوستان کی پالیسی بظاہر منافقانہ ہے۔ ایک طرف ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف مظالم اور جبر جاری ہے، جبکہ دوسری جانب وہ ایک اسلامی ریاست جیسے افغانستان کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ تجزیہ کار اور صحافی فخر کاکاخیل نے خبر کدا کو بتایا کہ ایک طرف ہندوستان کی مرکزی قیادت، ہندوستانی حکومت اور ہندوستانی عوام عالمی سطح پر اسلام دشمنی کے لیے بدنام ہیں اور ہم یہ مظالم ہندوستان کے اندر بھی دیکھتے ہیں۔ ہندوستان میں بنیاد پرست ہندوؤں جماعت کے اقتدار میں ہونے کے باوجود وہ افغانستان کے ساتھ کیسے تعلقات برقرار رکھ سکتے ہیں جہاں ایک سخت گیر اسلامی گروہ (افغان طالبان) کا کنٹرول ہے؟
انہوں نے مزید کہا کہ یہ تعلقات افغانستان اور ہندوستان دونوں کے لیے مسائل پیدا کر سکتے ہیں کیونکہ افغانستان میں داعش کی صورت میں ایک بڑا خطرہ موجود ہے۔ کاکاخیل نے نوٹ کیا کہ داعش کے پروپیگنڈا مواد میں طالبان کے طرز حکمرانی اور ہندوستان کے ساتھ ان کے تعلقات پر تنقید کی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ‘داعش افغانستان کے نوجوانوں کو یہ کہہ کر راغب کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ طالبان کی حکومت صرف نام کی اسلامی حکومت ہے کیونکہ طالبان ایک ایسے ملک (ہندوستان) کے ساتھ تعلقات برقرار رکھتے ہیں جہاں مسلمانوں پر ظلم کیا جاتا ہے اور انہیں قتل کیا جاتا ہے۔’
تجزیہ کار خبردار کرتے ہیں کہ ہندوستان اور افغان طالبان کے درمیان تعلقات افغانستان میں داعش کے بیانیے کو تقویت بخش سکتے ہیں، جس سے ملک کے لیے مزید سیکیورٹی چیلنجز پیدا ہو سکتے ہیں۔
تجزیہ کار یہ بھی تجویز کرتے ہیں کہ ہندوستان اور افغانستان کو فون کال سے متعلق اپنے علیحدہ بیانات کی وضاحت کرنے کی ضرورت ہے، جس میں یہ بتایا جائے کہ کیا بات چیت ہوئی اور کن موضوعات پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔