نوجوان قبائلی وزیرِ اعلیٰ کا امتحان: کیا سہیل آفریدی بدترین گورننس، سوشل میڈیا اور وفاق سے نبرد آزما ہو سکیں گے ؟

خیبر پختونخوا کے نو منتخب وزیرِ اعلیٰ سہیل آفریدی نے بدھ کے روز اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا ہے۔ وزیرِ اعلیٰ سے حلف گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے پشاور ہائی کورٹ کے احکامات کی روشنی میں لیا۔ حلف اٹھانے کے فوراً بعد، نئے وزیرِ اعلیٰ نے اڈیالہ جیل میں قید عمران خان سے ملاقات کی درخواست بھی جمع کرا دی ہے۔ اس طرح سہیل آفریدی تحریک انصاف کے چوتھے وزیرِ اعلیٰ بن گئے ہیں۔

ڈاکٹر خان صاحب سے لے کر سہیل آفریدی تک خیبر پختونخوا کے تمام وزرائے اعلیٰ کو صوبے کے کئی مسائل ورثے میں ملے۔ علاقائی کشیدگی، وسائل کم اور مسائل زیادہ، افغانستان کے ساتھ تعلقات میں مدّ و جزر اور مقامی سطح پر پیدا ہونے والی بدامنی کسی نہ کسی طریقے سے خیبر پختونخوا کے ہر وزیرِ اعلیٰ کے حصے میں آئی ہے۔

سہیل آفریدی پاکستان تحریکِ انصاف کے خیبر پختونخوا میں پہلے نہیں بلکہ چوتھے وزیرِ اعلیٰ ہیں۔ ان سے قبل وزیراعلی پرویز خٹک کو بدامنی اور دہشت گردی جیسے چلینجز سے نبردآزما ہونا پڑا۔ محمود خان کو اگرچہ مسائل کم اور وسائل زیادہ ملے تھے، لیکن وہ اپنی قائدانہ صلاحیتوں کے فقدان کے باعث بذاتِ خود ایک مسئلہ بن گئے۔ علی امین گنڈاپور کا دور سابق دونوں وزرائے اعلیٰ سے مختلف تھا۔ اگرچہ انہیں قبولیت حاصل تھی، لیکن پارٹی کے اندر مقبولیت حاصل بھی نہیں تھی کیونکہ پارٹی بائیں بازو کی سیاست کر رہی تھی۔ علی امین گنڈاپور کی کابینہ کے ایک وزیر کے مطابق، بحیثیتِ وزیرِ اعلیٰ علی امین گنڈاپور ستر، بیس اور دس کی سیاست کر رہے تھے: ستر فیصد وہ احکامات بجا لاتے تھے، بیس فیصد عمران خان کی مانتے تھے، اور دس فیصد میں خود کو وزیرِ اعلیٰ ثابت کرنے کی کوشش کرتے تھے۔

بحیثیتِ وزیرِ اعلیٰ سہیل آفریدی کے لیے بھی یہ مسند پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا بستر ہے۔ بارہ سالہ اقتدار کے باوجود سہیل آفریدی کو مندرجہ ذیل بڑے مسائل درپیش ہوں گے:

بدترین بدانتظامی

خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریکِ انصاف کے بارہ سالہ اقتدار کے دوران گورننس کا نظام بد سے بدترین ہوتا گیا۔ ہر سال درجنوں قوانین پاس کرنے کے باوجود عوام کے مسائل حل ہونے کے بجائے مزید بڑھتے گئے۔ شدید اور مختلف نوعیت کی بدعنوانی خیبر پختونخوا کے ہر محکمے میں سرایت کر چکی ہے۔

عمران خان کی رہائی کی کوششیں

سہیل آفریدی کو سب سے زیادہ دباؤ عمران خان کی رہائی کے لیے کارکنوں کی جانب سے درپیش ہو گا۔ علی امین گنڈاپور پر سب سے بڑا الزام یہ تھا کہ وہ عمران خان کی رہائی کی کوششوں میں سنجیدہ نہ تھے۔ سہیل آفریدی کے لیے ہر موقع پر اپنے آپ کو ایک ایسے رہنما کے طور پر پیش کرنا ہوگا جو عمران خان کی رہائی کو ہر چیز پر مقدم سمجھتا ہے اور اس کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔

بدامنی اور ملٹری آپریشنز

سہیل آفریدی نے اپنی پہلی تقریر میں ایکش اِن ایڈ آف سول پاور ریگولیشن کے خاتمے اور ملٹری آپریشنز کے خلاف بیان دیا۔ لیکن کیا خیبر پختونخوا کی پولیس کی استعداد اس حد تک ہے کہ وہ فوج کے بغیر صوبے کے بندوبستی اور بالخصوص قبائلی اضلاع میں قیامِ امن کو ممکن بنا سکے؟

پارٹی قیادت سے تعلق

علی امین گنڈاپور کی سب سے بڑی خامی پارٹی قیادت کو ساتھ لے کر چلنے کے بجائے ان کے ساتھ مزاحمانہ رویہ اختیار کرنا تھا۔ سہیل آفریدی نے یہ بات سیکھ لی ہے کہ اگر اپنے خلاف سیاسی مورچوں کو کم کرنا ہے تو اس میں انہیں پارٹی کی صوبائی اور مرکزی قیادت کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ پارٹی اس وقت درجنوں دھڑوں میں تقسیم ہے، جو سہیل آفریدی کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔

وفاق کے ساتھ تعلق

خیبر پختونخوا کے بجٹ کا نوّے فیصد انحصار وفاق کی جانب سے قابلِ تقسیم محاصل پر ہے۔ اگر خیبر پختونخوا کا وفاق کے ساتھ رویہ معاندانہ رہا تو مالی امور، بالخصوص وفاق کی جانب سے ترقیاتی پروگراموں میں، خیبر پختونخوا کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ پن بجلی، آبی وسائل اور قومی مالیاتی ایوارڈ میں قبائلی اضلاع کے لیے پانچ فیصد حصہ مختص کرنا صوبے کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہوگا۔

پارٹی کے سوشل میڈیا کا استعمال

سہیل آفریدی نے اپنی پہلی تقریر میں واضح کیا کہ اس وقت ملک کی سب سے بڑی اسٹیبلشمنٹ تحریکِ انصاف کی سوشل میڈیا ٹیم ہے۔ کہا جاتا ہے کہ علی امین گنڈاپور کی کشتی کو ڈبونے میں سب سے بڑا کردار حزبِ اختلاف کے بجائے پارٹی کی اپنی ہی سوشل میڈیا ٹیم کا تھا۔

قبائلی اضلاع میں ترقیاتی کام

قبائلی اضلاع کے خیبر پختونخوا کے ساتھ انضمام کو چھ سال گزرنے کے باوجود صوبائی حکومت وہاں کسی ترقیاتی میگا پراجیکٹ کا آغاز نہ کر سکی۔ قبائلی علاقوں میں ترقیاتی منصوبوں کا آغاز اور ان کی تکمیل، بحیثیتِ قبائلی نوجوان، سہیل آفریدی کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔

متعلقہ خبریں

مزید پڑھیں