پاکستان کی انسداد دہشت گردی کارروائیاں: افغان طالبان اور  ٹی ٹی پی کے تعلق کو نمایاں کرتی ہیں

تحریر: ریاض حسین

 پاکستان کے مالاکنڈ، باجوڑ، ژوب، شمالی وزیرستان اور دیگر قبائلی اضلاع میں جاری تازہ انسداد دہشت گردی آپریشنز نے ایک بار پھر کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور افغان طالبان کے عناصر کے درمیان آپریشنل تعلق کو بے نقاب کیا ہے۔ سیکیورٹی حکام نے تصدیق کی ہے کہ افغان علاقہ پاکستان میں سرحد پار حملوں کی بھرتی، تربیت اور منصوبہ بندی کے لیے محفوظ پناہ گاہیں فراہم کر رہا ہے۔

صحافی تیمور خان نے خبرکدا کو بتایا کہ عسکریت پسندوں کی طرف سے افغان سرزمین کا استعمال دوحہ معاہدے (2020) کی واضح خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے نوٹ کیا کہ طالبان قیادت نے بھی بالواسطہ طور پر اس مسئلے کو تسلیم کیا ہے۔ افغان طالبان کے امیر نے حال ہی میں ایک فتویٰ جاری کیا ہے جس میں حکومت کی اجازت کے بغیر کسی بھی ملک میں جہاد کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ تیمور خان نے مزید کہا کہ حالیہ چین-پاکستان-افغانستان مذاکرات میں بیجنگ نے کابل پر زور دیا کہ وہ پاکستان کے تحفظات کو دور کرے۔ انہوں نے مزید خبردار کیا کہ اگست 2025 اب تک کا سب سے مہلک مہینہ تھا، جس میں 556 ٹی ٹی پی کی قیادت میں حملے ریکارڈ کیے گئے، جس میں حافظ گل بہادر گروپ جیسے دھڑے علاقائی استحکام کے لیے سنگین خطرات پیدا کر رہے ہیں۔

پاکستان نے بارہا کابل پر سرحد پار عسکریت پسندوں کی پناہ گاہوں سے چشم پوشی کا الزام لگایا ہے جس سے سرحد کے اس پار خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی میں اضافہ دیکھنے کو آیا ہے. تاہم، افغان طالبان حکومت ان دعوؤں کو مسترد کرتی ہے اور ساتھ میں اصرار کرتی ہے کہ وہ دوحہ معاہدے اور اگست 2021 کے بعد اپنے اس عہد پر قائم ہے کہ افغان سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہوگی۔ کابل کا مؤقف ہے کہ پاکستان کے چیلنجز بڑی حد تک اندرونی ہیں اور الزام تراشی کی بجائے تعاون پر زور دیتا ہے۔

سیکیورٹی ذرائع کے مطابق اپریل 2025 کے آپریشنز سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ 500-600 سابق طالبان جنگجو، جو کبھی انٹرنیشنل سیکیورٹی اسسٹنس فورسز کے خلاف صف آراء تھے اب افغان جنگجوؤں کی طرف سے ٹی ٹی پی کے دھڑوں میں دوبارہ شامل ہونے کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔ گزشتہ پانچ مہینوں کے دوران افغانستان سے تعلق رکھنے والے تقریباً 150 دہشت گرد مارے گئے۔

شمالی وزیرستان

قبائلی ضلع شمالی وزیرستان میں 25-28 اپریل کو 71 افغان دہشت گرد ہلاک ہوئے جن میں سے 54 ایک ہی جھڑپ میں مارے گئے۔

باجوڑ – آپریشن سربکف (29-31 جولائی)

 باجوڑ میں سات ٹی ٹی پی کے دہشت گرد ہلاک جبکہ 3 فوجی شہید ہوئے ہیں۔ اس اپریشن میں 11 عسکریت پسند زخمی ہوئے جن میں 4 افغان شہری شامل ہیں۔

مالاکنڈ 16-20 جولائی

 مالاکنڈ میں سیکیورٹی فورسز کے آپریشن میں 9 دہشت گرد ہلاک ہوئے اور افغان کارندے پکڑے گئے۔ اس اپریشن کے دوران 2 ٹھکانے تباہ کر دیے گئے۔

ژوب، بلوچستان (7-10 اگست)

بلوچستان کے ضلع ژوب کے سرحدی علاقے میں سیکیورٹی فورسز کے کارروائی میں 50 افغان عسکریت پسند ہلاک ہوئے۔ ان دہشت گردوں میں 90% کی تصدیق افغان شہری کے طور پر ہوئی ہیں۔ ان ہلاک شدہ افغان شہریوں کی لاشیں پکتیکا منتقل کر دی گئیں۔

اپر دیر (26 اگست)

 اپر دیر میں 9  ٹی ٹی پی کے دہشت گرد  ہلاک ہوئے ہیں۔ جن میں 10 پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں جبکہ 2 شہری شہید ہو گئے ہیں۔

بنوں (2 ستمبر)

 خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں دہشت گردوں کے ساتھ جھڑپ میں چھ سیکیورٹی فورسز کے اہلکار شہید جبکہ پانچ دہشت گرد  ہلاک ہوئے جن میں پکتیکا سے تعلق رکھنے والا ایک افغان خودکش بمبار شامل تھا۔

 اپر جنوبی وزیرستان (7 ستمبر)

 جنوبی وزیرستان اپر کے علاقے سروکئی میں سات دہشت گردوں کو  ہلاک کر دیا گیا جن میں افغان ڈرون ماہر نور محمد شامل تھا۔

لوئی ماموند، باجوڑ (7 ستمبر)

 لوئی ماموند میں سیکیورٹی فورسز کی کاروائی میں دو  دہشت گرد کی ہلاکت ہوئی جبکہ 3 دہشتگرد زخمی ہوئے جن میں لوگر سے تعلق رکھنے والا افغان شہری احمد شامل ہے۔

صحافی شہاب اللہ جو افغانستان سے متعلق رپورٹنگ میں مہارت رکھتے ہیں، نے خبرکدا کو بتایا کہ ٹی ٹی پی اکیلے پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کا مقابلہ نہیں کر سکتی اور اکثر قبائلی علاقوں میں مقامی ہمدردوں سے مدد لیتی ہے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ لوئر دیر اور باجوڑ میں افغان جنگجوؤں کی لاشوں کا حال ہی میں تبادلہ ہوا جو ان کی براہ راست شمولیت کو ثابت کرتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی خبردار کیا کہ بلوچستان میں، کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے)، ٹی ٹی پی اور افغان عسکریت پسندوں کا ایک گٹھ جوڑ ابھر رہا ہے، جو اجتماعی طور پر سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

سفارتی دباؤ

20 اگست 2025 کو، اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر نے ایک تفصیلی رپورٹ پیش کی جس میں افغانستان میں موجود پناہ گاہوں کو ایک عالمی خطرہ قرار دیا گیا۔ اسلام آباد نے خبردار کیا کہ آپریشنز میں افغان شمولیت کی تصدیق ٹی ٹی پی-افغان طالبان کے بڑھتے ہوئے گٹھ جوڑ کی نشاندہی کرتی ہے، جو بین الاقوامی سطح پر خطرے کی گھنٹی بجا رہی ہے۔ چین اور افغانستان کے ساتھ حالیہ سہ فریقی مذاکرات کے باوجود، سرحد پار عسکریت پسندی میں اضافہ ہو رہا ہے، جو علاقائی امن، انضمام اور اقتصادی ترقی کے لیے خطرہ ہے۔

پس منظر

دوحہ معاہدے (29 فروری 2020) کے تحت، افغان طالبان نے عہد کیا کہ افغانستان دہشت گرد گروہوں کو پناہ یا حمایت نہیں دے گا۔ 15 اگست 2021 کو کابل پر قبضہ کرنے کے بعد طالبان رہنماؤں نے امریکہ اور علاقائی پڑوسیوں سے اس عزم کو دہرایا۔ تاہم، 2024-2025 میں پاکستان کے آپریشنز نے ان یقین دہانیوں پر شدید شکوک و شبہات پیدا کر دیے ہیں، جس میں سرحد پار دہشت گردی میں افغان جنگجوؤں کی شمولیت کے بڑھتے ہوئے شواہد سامنے آئے ہیں۔ کابل ان الزامات کو مسترد کرتا رہتا ہے اور اپنی غیر جانبداری کی سرکاری پوزیشن برقرار رکھتا ہے۔

متعلقہ خبریں

مزید پڑھیں