تحریر: ریاض حسین
کئی سالوں کی جنگ اور دہشت گردی کے بعد جب خیبر پختونخوا کے لوگ امن اور استحکام کی امیدیں باندھ رہے تھے، تب اب ٹارگٹ کلنگ کی ایک نئی لہر نے لوگوں کے دلوں میں خوف اور دہشت پیدا کر دی ہے۔ عسکریت پسند علاقے میں ان لوگوں کو نشانہ بنا رہے ہیں جو ان کے خلاف بات کرتے ہیں یا ان کے راستے میں کھڑے ہیں۔
اتوار کے روز ضلع صوابی میں45 سالہ عظیم داد کو کالا بت علاقے میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ ریسکیو 1122 کے حکام نے بتایا کہ عظیم داد خان کو نامعلوم افراد نے نشانہ بنایا، جو موقع پر ہی دم توڑ گئے اور ان کی لاش پوسٹ مارٹم کے لیے تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال بھیج دی گئی۔
ابتدائی رپورٹ کے مطابق، حملے کی وجہ واضح نہیں تھی، لیکن چند گھنٹوں بعد تحریک طالبان پاکستان یا "الخوارج” گروپ نے واقعے کی ذمہ داری قبول کی اور عظیم داد کو "پاکستانی فوج کا جاسوس” قرار دیا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ عظیم داد کا 2016 میں ان کے دو ساتھیوں، کاشف اور مدثر کے قتل میں ہاتھ تھا۔
اس واقعے کے بعد صوابی کے لوگوں میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے اور مقامی رہائشیوں کا کہنا ہے کہ یہ ایک ٹارگٹڈ واقعہ ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ واقعے کی تحقیقات جاری ہیں۔
صوابی ضلع میں یہ واقعہ ایک اور اعلیٰ سطح کی ٹارگٹ کلنگ کے چند دن بعد پیش آیا ہے۔ اس واقعے میں، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے ایک سینئر رہنما، یونین کونسل کے سابق ناظم اور ایک مقامی امن کمیٹی کے سربراہ جعفر خان کو سوات کے کبل تحصیل کے کلکلائی علاقے میں ان کے گھر کے سامنے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی، جو یہ واضح کرتے ہوئے کہ وہ امن کارکنوں اور سیاسی کارکنوں کو خاموش کرانے کی اپنی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔
علاقے کے لوگوں کے لیے یہ قتل پرانے زخموں کو تازہ کرتے ہیں۔ جعفر خان کو ایک ایسے شخص کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جو اس وقت دہشت گردی کے خلاف کھڑا ہوا جب بہت کم لوگوں میں یہ ہمت تھی۔ کلکلائی کے ایک غمزدہ رہنما نے جعفر خان کے قتل پر کہا کہ "انہوں نے ہمیں ان تاریک دنوں میں ہمت دی۔”
ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ اس طرح کے حملے عسکریت پسندوں کی ایک وسیع حکمت عملی کا حصہ ہیں، جس کا مقصد کمیونٹی کو خوفزدہ کرنا، مخالفت کو ختم کرنا اور صوابی، سوات، باجوڑ اور شمالی وزیرستان سمیت کئی اضلاع میں اپنی اجراداری دوبارہ قائم کرنا ہے۔ حکام بھی تسلیم کرتے ہیں کہ خطرہ حقیقی ہے کیونکہ عسکریت پسند سرحد پار پناہ گاہوں اور مقامی نیٹ ورکس کا استعمال کرتے ہوئے کسی بھی وقت حملے کر سکتے ہیں۔