محترم نصرت جاوید صاحب دوران شو جعفر ایکسپریس واقعہ کونا صرف پاکستان کا نائن الیون کہہ رہے تھے بلکہ پاکستانی میڈیا اور اس کے چلانے والوں پر خوب گرج برس رہے تھے۔ اس سے مجھے تھوڑی سی کوفت ہو رہی تھی کیونکہ اس میں میڈیا کا کیا قصور تھا۔
درجن بھر سے زائد ساتھیوں کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کھونے کے بعد میں تو قومی میڈیا سے دور رہنے لگا لیکن بہرحال کبھی اس میڈیا کا حصہ رہا تھا۔ چاہے زلزلہ ہو یا سیلاب چاہے جمہوریت کی تحریک ہو یا دہشت گردی کے خلاف جنگ اس میڈیا نے ایک مصدقہ تعمیری کردار ادا کیا ہے۔ اب ایسے میں خود اس میڈیا کے سرخیل جس نے فرنٹ لائن میں اپنے دیگر کامریڈز کے ساتھ یہ جنگ لڑی اگر وہ یہ کہہ رہا تھا تو ظاہری بات ہے کہ مجھ پر یہ بات گراں گزر رہی تھی۔ پھر بھی چونکہ نصرت جاوید صاحب کا شمار میں اپنے ان ساتھیوں میں کرتا ہوں جن کے ساتھ میں "باآواز بلند سوچتا” رہا ہوں۔ یعنی اگر میں ان کے سامنے بیٹھ کر کچھ سوچوں بھی تو انہیں معلوم ہوگا کہ اس وقت میں کیا سوچ رہا ہوں۔ اس لیے میں نے سوچنا شروع کیا کہ نصرت صاحب جعفر ایکسپریس ٹرین حادثے میں میڈیا اور میڈیا مینجرز پر کیوں گرج برس رہے ہیں۔
تب مجھے یاد آیاکہ پاکستان میں کارگل جنگ کے بعد بھی اسٹیبلشمنٹ کو الیکٹرانک میڈیا میں بھی توپوں، مورچوں، مارٹرز، ایف سولہ جیسے اسلحے کی ضرورت محسوس ہوئی تھی اس کے بعد یہ الگ بات ہے کہ یہ اسلحہ اسی آمریت کے خلاف استعمال ہوا لیکن اس نے قومی بحرانوں میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ وہ دور تھا جب ٹی وی نیوز روم ایک وار روم کی طرح چوبیس گھنٹے حرکت میں رہتا تھا۔ ایک پیشہ ور ڈائیریکٹر نیوز ہوتا تھا جس سے ٹی وی کا مالک کبھی کبھی پوچھا کرتا تھا کہ معاملات کیسے چل رہے ہیں۔ بجٹ کم ہے یا ڈائیریکٹر نیوز کی شکایات کے بعد کبھی کبھی بجٹ دے بھی دیتا تھا۔ لیکن نیوزچینل کی ادارتی فیصلوں کافیصلہ نیوزچینل کے مالک کو اپنے چینل کی سکرین سے ہی پتا چلتا تھا۔ اسی دور میں نصرت جاوید صاحب اپنی صحافت کرتے تھے اور اپنے چینل پر چلنے والی نیوز سے ہی وہ اس دن کے واقعات سے آگاہ ہوتے تھے۔
پھر وقت بدلا اسٹیبلشمنٹ نے سوچا کہ بوتل کے جس جن کو انہوں نے باہر نکالا ہے اس کو واپس بوتل میں بند کرنے کا وقت آگیا ہے۔ تمام توپ و توفنگ کو ان کے شہسواروں سمیت تلف کرکے اپنے "کی بورڈ واریرز” کے نام سے پیادے تشکیل دیئے گئے۔ جو پریس ریلیز کی شکل میں نیوز چینلز اور ڈیجیٹل سپیس میں نمودار ہونے لگے۔ وہ بھی دور تھا جب پریس ریلیز سے خبر نکال کر دی جاتی تھی اب خبر کو پریس ریلیز بلکہ ریلز بنایا جانے لگا۔ ڈائیریکٹر نیوز کے عہدے کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد مالکان نے وٹس ایپ سے نیوزروم بنا دیا۔ ایسے میں جس کو ڈائیریکٹر نیوز کے نام پر تنخواہ دی جاتی تھی وہ ہر واقعہ پر چینل مالک کو کال کرکے پوچھنے لگا “کیا کریں، سر؟” نیوزچینل مالک جو کسی سودے میں یا ڈنر پر بیٹھا ہوتا الٹا پوچھتا "بھائی لوگوں کی طرف سے کچھ آیا ہے؟” لیکن جب اسے بتا دیا جاتا کہ ابھی تک کچھ نہیں ہے، سرتو تھوڑی دیر بعد چینل مالک پوچھتا ہاں بھائی، باقی چینلز پر کیا چل رہا ہے؟ نام نہاد ڈی این دیوار پر لگی تمام سکرینوں کو دیکھنے پر جواب دیتا۔ سر، ادھر بھی کچھ نہیں ہے۔ تو چینل کا مالک گفتگو اس بات پر ختم کرتا۔ "دیکھ لو کچھ بھی چلا دو یار”۔ اس کے بعد کچھ بھی چلنے لگتا۔ صحافیوں پر اعتماد ختم کرنے سے ظاہری بات ہے کہ چینلز کا اعتماد بھی ختم کر دیا گیا۔Mission Accomplished خوب تالیاں بجی ہو نگی۔
پھر وقت نے پلٹا کھایا۔ مجاہدین اور طالبان کی طرح کی بورڈ کے پیدل سپاہی ابلاغی جنگ میں سینے پر تمغے جمائے دشمن قرار دیئے گئے۔ مسئلہ یہ تھا کہ جس اکیڈمی سے وہ نکلے تھے اس کے رگ رگ سے واقف تھے اور ان کے انسٹرکٹر بھی زیرعتاب ہوئے تو انہوں نے پلٹ کر اپنے ہی مورچوں پر جنگ میں بدکے ہوئے ہاتھیوں کی طرع یلغار کی۔ طالبان کی طرح پرانے وفادار غدار بنے۔ سسٹم کے اندر سے ان کو راستے دیئے گئے تاکہ وہ میدان جنگ سے فاصلے پر بیٹھ کر سسٹم پر گولہ باری جاری رکھیں۔اب طالبان اور بلوچ انتہا پسند اندر سے پورے نظام کو للکار رہے ہیں اور Bytes کے شیر باہر سے Bite کر رہے ہیں۔ ایسے میں جب نظام کی اپنے مضبوط ہتھیاروں پر نظر پڑی تو معلوم ہوا کہ وہ خود بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں قومی بیانیے کی جنگ ان کے لیے اب کسی خواب سے کم نہیں ہے۔ شاید یہی وہ لمحہ تھا جہاں نصرت جاوید صاحب چلا اٹھے۔
منظر بدلا، ڈی جی آئی ایس پی آر اپنے ساتھ وزیراعلی بلوچستان کو بٹھا کر جعفر ایکسپریس پر حملے کی تفصیلات بتا اور دکھا رہے ہیں۔ جگہ جگہ وہ ہندوستانی میڈیا کے عکس بھی دکھا رہے ہیں۔ جب نیوز میں ہندوستان جعفر ایکسپریس کے حوالے سے میراتھن ٹرانسمیشن چلا رہا تھا۔ انہوں نے اپنی میڈیا کا ذکر نہیں کیا جو نیوز میں فقط ایک ہیڈلائن کے علاوہ کچھ بھی دکھانے اور بتانے سے معذور تھا۔”خوش تو بہت ہوگے تم۔”
چشم زدن میں خود کو اس پریس کانفرنس میں بیٹھا محسوس کیا۔ اردگرد دیکھا سینئر صحافیوں، اینکرز، ڈائیریکٹر نیوز اکثریت کو آنکھیں پہچاننے سے انکاری تھیں۔ ظاہری بات ہے گزشتہ ایک دہائی میں بہت کچھ بدل گیا ہے۔ میں سوچ رہا تھا کہ یہ بیٹھے ہوئے ساتھی کس طرح عالمی میڈیا میں پاکستان کا بیانیہ پیش کریں گے۔ وہ بیانیہ ہے کیا؟ میں پریس کانفرنس کو غور سے سننے لگتا ہوں۔ پریس کانفرنس کے اختتام پر بے اختیار میرا ہاتھ اٹھ جاتا ہے۔ سارے میری طرف دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ جس سے میں ہڑبڑا کر پوچھ بیٹھتا ہوں۔
"سر، آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟”