ترک صدر رجب طیب اردوان کے دو روزہ دورے کے دوران پاکستان اور ترکیہ نے دفاع، تجارت اور انسداد دہشت گردی سمیت مختلف شعبوں میں دوطرفہ تعاون کو مضبوط بنانے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔
پاکستان-ترکیہ ہائی لیول اسٹریٹجک کوآپریشن کونسل کے ساتویں اجلاس کا اختتام ایک مشترکہ اعلامیے اور کئی معاہدوں کے ساتھ ہوا۔ سیکورٹی، دفاع، انٹیلیجنس، صحت اور سائنس و ٹیکنالوجی پر توجہ مرکوز کرنے والے نئے مشترکہ اسٹینڈنگ کمیٹیز بھی قائم کی گئیں۔
اس حوالے سے پاکستانی وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق دونوں ممالک نے افغانستان میں استحکام کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ کسی ملک کو اپنی سرزمین کو دہشت گرد گروپس کی پناہ گاہوں کے لیے استعمال ہونے نہیں دینا چاہیے۔ دونوں ممالک نے افغان عبوری حکومت پر زور دیا کہ وہ تحریک طالبان پاکستان اور داعش خراسان جیسے گروہوں کے خلاف ضروری اقدامات کریں۔
جمعہ کو ایک پریس بریفنگ میں وزارت خارجہ کے ترجمان شفقت علی خان نے افغانستان میں پناہ لینے والے تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں کی موجودگی کے حوالے سے پاکستان کی گہری تشویش کا اظہار کیا۔ شفقت علی خان نے زور دیا کہ یہ مسئلہ پاکستان کے افغانستان کے ساتھ تعلقات میں ایک اہم رکاوٹ ہے اور اسے حل کرنا دوطرفہ تعاون کی مکمل بحالی کے لیے ناگزیر ہے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ پاکستان اس معاملے پر افغان عبوری حکومت کے ساتھ مختلف سفارتی ذرائع کے ذریعے بات چیت جاری رکھے ہوئے ہے اور اس مسئلے کو حل کرنے کی درخواست کرتا آ رہا ہے۔ انہوں نے انسداد دہشت گردی کے کے لیے ایک جامع حکمت عملی کی نشاندہی کی جس سے پاکستانی سرحدوں کے اندر دہشت گردوں سے نپٹا جا رہا ہے۔ ترجمان نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے دوطرفہ جامع طریقہ کار موجود ہونے کی بھی تصدیق کی ہے اور اس بات کو دہرایا کہ تحریک طالبان پاکستان کی پناہ گاہیں افغان حکومت کے ساتھ بات چیت کا مرکزی نقطہ ہیں۔
افغانستان کی طرف سے جاری دہشت گردی پر خان نے کہا کہ پاکستان اپنے تحفظات کو تمام بین الاقوامی فورمز پر اٹھا رہا ہے اور دوست ممالک سمیت براہ راست افغان حکومت کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ پاکستان اپنی مخصوص ضروریات اور حالات کے مطابق دہشت گردی کے خلاف حکمت عملی اپناتا ہے اور اس سے افغان حکومت کو آگاہ کرتا ہے۔