افغان طالبان کے وزیر داخلہ سراج الدین حقانی نے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اپنے اندرونی اختلافات کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے اس بات پر تنقید کی کہ کچھ لوگ میڈیا میں بلند آواز میں باتیں کرتے ہیں حالانکہ انہوں نے جہاد میں کوئی حصہ نہیں لیا۔
سراج الدین حقانی نے کہا، "میں میڈیا میں دیکھتا ہوں کہ بہت سے لوگ بلند آواز میں باتیں کرتے ہیں، وہ اس طرح بولتے ہیں جیسے یہ فتح انہوں نے حاصل کی ہو، یہ بہادری بھی وہ اپنے نام کرتے ہیں۔ شہداء کو بدنام نہ کرو، یہ جو بلند آواز میں بولتے ہیں، انہوں نے ایک دن بھی جہاد نہیں کیا۔”
بین الاقوامی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ سراج الدین حقانی کو افغانستان میں ایک ایسا طالب رہنما سمجھا جاتا ہے جو ملک کے اندرونی معاملات میں استحکام لانا چاہتا ہے اور پڑوسی ممالک خاص طور پر پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات قائم رکھنا چاہتا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق حقانی ان تمام طالبان کی رائے کی مخالفت کرتے ہیں جو خطے کی سیکیورٹی کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
افغانستان کے معاملات پر نظر رکھنے والے ماہرین نے خبرکدہ کو بتایا کہ اس وقت افغانستان میں طالبان دو بڑے دھڑوں میں تقسیم ہیں، ایک حقانی گروپ اور دوسرا ملا یعقوب گروپ جو کندھار میں مقیم ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ملا یعقوب کا گروپ پاکستان اور دیگر پڑوسی ممالک کے ساتھ تنازعات چاہتا ہے اور اپنی سرزمین کو ان گروہوں کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دیتا ہے جو پڑوسی ممالک میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرتے ہیں، جیسے کہ ٹی ٹی پی، داعش اور بی ایل اے جو پاکستان میں حملے کرتے ہیں۔
افغانستان امور کے ماہر اسد یوسفزئی نے کہا کہ سراج الدین حقانی کا حالیہ بیان اس تناظر میں دیکھا جاتا ہے کہ ملا یعقوب گروپ پاکستان کے ساتھ تنازعہ چاہتا ہے جبکہ حقانی گروپ اس کی مخالفت کرتا ہے۔
اسد یوسفزئی نے کہا، "یہ حالیہ بیان اس تناظر میں ہے کہ وہ قندھار گروپ کو بتانا چاہتے ہیں کہ افغانستان ہم نے غیر ملکی افواج سے لیا اور جنگ کے فیصلے تم کرتے ہو۔” انہوں نے اس صورتحال کو افغانستان کے اتحاد کے لیے بہت تشویشناک قرار دیا۔
واضح رہے کہ گزشتہ سال دسمبر میں سراج الدین حقانی کے بھائی اور وزیر برائے مہاجرین خلیل الرحمان حقانی کابل میں ایک خودکش حملے میں مارے گئے تھے۔ خلیل کی ہلاکت کی ذمہ داری داعش خراسان نے قبول کی تھی۔ خلیل حقانی افغانستان میں اپنے گروپ کے اہم رہنما تھے، جن کی قیادت اب سراج الدین حقانی کر رہے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر افغانستان کی حکومت پر نظر ڈالی جائے تو یہ کئی دھڑوں پر مشتمل ہے۔ وہ خود کو امارت کہتے ہیں لیکن درحقیقت یہ دھڑوں میں تقسیم ہیں۔ ماہرین کے مطابق، طالبان کے درمیان نظریاتی اختلافات موجود ہیں۔
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ سے منسلک سینئر صحافی حق نواز خان نے خبر کدہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ "اس وقت افغان طالبان کو اندرونی مسائل کا سامنا ہے اور پڑوسی ممالک کے ساتھ بھی مشکلات ہیں، لہٰذا یہ ضروری ہے کہ مستقبل میں یہ مسائل پیدا کریں گے۔”