پیر کے روز کابل میں مقیم پاکستان کے ناظم الامور عبید الرحمان نظامانی نے افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی سے ملاقات کی ہے۔
افغان وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق ملاقات میں دوطرفہ سیاسی اور اقتصادی تعلقات پر تبادلہ خیال کیا ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ امیر خان متقی نے پاکستان میں افغان مہاجرین کے ساتھ ‘بدسلوکی’ کے حوالے سے افغان حکومت کے خدشات کا اظہار کیا اور دونوں ممالک کے تعلقات پر اس عمل کے نقصان دہ اثرات کو اجاگر کیا۔
عبید الرحمان نظامی نے وزیر کو بتایا کہ وہ افغان حکومت کے خدشات کو سمجھتے ہیں اور انہیں متعلقہ اداروں تک پہنچائیں گے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ فریقین نے دونوں جانب سے وفود کے دوروں کو جاری رکھنے پر زور دیا۔
یاد رہے کہ یہ ملاقات ایسے وقت میں ہوئی ہے جب پاکستان افغان مہاجرین کی واپسی کے دوسرے مرحلے کو آگے بڑھا رہا ہے۔ پاکستان نے افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کی رضاکارانہ واپسی کے لیے 31 مارچ کی ڈیڈ لائن مقرر کی تھی۔ اس کے بعد سے حکومت نے غیر دستاویزی مہاجرین اور اے سی کارڈ ہولڈرز کو ہولڈنگ سینٹرز میں منتقل کرنا شروع کر دیا ہے، جہاں سے انہیں بالآخر ملک بدر کیا جاتا ہے۔
خیبر پختونخواہ کے محکمہ داخلہ کے مطابق 19,058 اے سی سی ہولڈرز اور 504,671 غیر دستاویزی مہاجرین کو سرحد پار واپس بھیجا جا چکا ہے۔
افغان حکومت نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ واپسی کے عمل کے دوران مہاجرین کے ساتھ بدسلوکی نہ کی جائے۔ یو این ایچ سی آر سمیت بین الاقوامی ایجنسیوں نے بھی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس معاملے کو ‘انسانی ہمدردی کے نقطہ نظر’ سے دیکھے۔ پاکستانی حکومت کا مؤقف ہے کہ کسی بھی افغان مہاجر کے ساتھ بدسلوکی نہیں کی جا رہی ہے۔ طالبان کے ایک عہدیدار نے حال ہی میں مہاجرین سے باعزت واپسی کی اپیل کی تھی۔