پیر کے روز سمندر پار پاکستانیوں کی کنونشن کا باضابطہ آغاز ہوگیا۔ کنونشن کا مقصد قومی معیشت میں سمندر پار پاکستانیوں کے نمایاں کردار کا اعتراف کرنا اور ان کے مسائل کا حل نکالنا ہے۔
تین روزہ تقریب 13 سے 15 اپریل تک جاری رہے گی جس میں 60 سے زائد ممالک سے 1,078 سمندر پار پاکستانی شرکت کر رہے ہیں۔ یہ کانفرنس سمندر پار پاکستانیوں، سرکاری نمائندوں اور قومی اداروں کے لیے بات چیت اور تعاون کے لیے ایک پلیٹ فارم کا کام کرے گی۔
کانفرنس میں شرکت کرنے والےسمندر پار پاکستانیوں کو "ریاستی مہمان” کا درجہ دیا گیا ہے اور ہوائی اڈوں پر ان کی آمد کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں۔
نادرا، ایف آئی اے، نیب، پاسپورٹ آفس، اسٹیٹ بینک اور ایف بی آر جیسے سرکاری محکموں نے معلومات اور خدمات فراہم کرنے کے لیے ہیلپ ڈیسک قائم کیے ہیں سمندر پار پاکستانیوں کی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔
اسلام آباد کے لوک ورثہ میں آنے والے مہمانوں کے لیے اتوار کو لوک موسیقی کے ساتھ ثقافتی فوڈ فیسٹیول کا اہتمام کیا گیا۔ پیر کے روز کانفرنس کا باضابطہ آغاز ہوا۔
وزیر برائے اوورسیز پاکستانیز چوہدری سالک حسین نے ان ترسیلات زر کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ یہ لاکھوں پاکستانیوں کی کفالت کرتی ہیں۔ انہوں نے ترسیلات زر میں حالیہ اضافے کو پاکستانی حکومت پر تارکین وطن پاکستانیوں کے اعتماد سے منسوب کیا ہے۔
سمندر پار پاکستانیوں کی ترسیلات زر ملکی آمدنی کا ایک اہم ذریعہ ہیں اور ملک کو اس سال 35 بلین ڈالر سے زائد ترسیلات زر کی توقع ہے، جس میں صرف فروری میں ریکارڈ 1.3 بلین ڈالر شامل ہیں۔