پاکستان میں فضائی آلودگی: خاموش قاتل اور عالمی فنڈز کی قلت کا شدید مسئلہ

فضائی آلودگی آج ہمارے دور کا سب سے بڑا ماحولیاتی خطرہ بن چکی ہے— یہ ایک خاموش قاتل ہے جو ہر سال دنیا بھر میں 8.1 ملین سے زیادہ جانیں نگل لیتا ہے۔ یونائیٹڈ نیشنز انوائرمنٹ پروگرام (UNEP) کے مطابق، آلودگی کے خلاف اقدامات نہ صرف انسانی صحت بلکہ معیشت اور ماحولیاتی نظام دونوں کے لیے فائدہ مند ہیں، کیونکہ فضائی آلودگی اور ماحولیاتی تبدیلی کے ذرائع اور اثرات آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔

یونائیٹڈ نیشنز انوائرمنٹ پروگرام (UNEP) کیا ہے؟

یو این ای پی دنیا بھر میں حکومتوں کی معاونت کر رہا ہے تاکہ وہ صاف ہوا سے متعلق قوانین کو مضبوط کریں، اخراجات کی نگرانی بہتر بنائیں اور نجی و صنعتی شعبے میں پائیدار سرمایہ کاری کو فروغ دیں۔ یہ ادارہ یہ سمجھنے میں بھی مدد دیتا ہے کہ آلودگی کہاں سے پیدا ہوتی ہے اس کے انسانی و معاشی اثرات کیا ہیں اور ممالک باہمی تعاون کے ذریعے اسے کس طرح کم کر سکتے ہیں۔

پاکستان کی سنگین صورتحال

پاکستان کے لیے یہ معاملہ خاص طور پر سنگین ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے ملک دنیا کے سب سے زیادہ آلودہ تین ممالک میں شامل ہے جبکہ لاہور مسلسل دنیا کا سب سے آلودہ شہر قرار پایا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق صرف سات دن ایسے آئے ہیں جب لاہور عالمی ادارہ صحت کے محفوظ معیار پر پورا اترا ہے۔

ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان میں بیرونی فضائی آلودگی ہر سال تقریباً 22 ہزار قبل از وقت اموات کا باعث بنتی ہے جبکہ گھریلو آلودگی مزید 28 ہزار اموات کا سبب بنتی ہے۔ آلودہ ہوا پاکستانیوں کی اوسط عمر میں تقریباً چار سال کی کمی لاتی ہے اور لاہور، پشاور، گوجرانوالہ اور راولپنڈی جیسے شہروں میں یہ کمی سات سال تک جا پہنچتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، فضائی آلودگی کی وجہ سے ملکی معیشت کو سالانہ کا سات فیصد جی ڈی پی نقصان ہوتا ہے یعنی تقریباً 365 ارب روپے جس کا بوجھ سب سے زیادہ غریب آبادی اٹھاتی ہے۔

انتظامی ناکامی اور تدارک کا راستہ

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بحران محض قدرتی نہیں بلکہ انتظامی ناکامیوں کا نتیجہ ہے۔ کمزور قانون نافذ کرنے والے ادارے، پرانے صنعتی و ٹرانسپورٹ نظام، کھیتوں میں فصلوں کی باقیات جلانا، اور اینٹوں کے بھٹوں سے اٹھتا دھواں یہ سب مل کر وہ زہر بناتے ہیں جو ہم روز سانس کے ذریعے اپنے جسم میں اتارتے ہیں۔ صرف لاہور میں 42 لاکھ موٹر سائیکلیں روز سڑکوں پر رواں ہیں، اور پرانے ڈیزل ٹرک اب بھی سیاہ دھواں اگل رہے ہیں۔

ماہرین کے مطابق اگر پاکستان ٹرانسپورٹ، صنعت، زراعت اور تعمیراتی شعبوں میں جدید، کم اخراج والے طریقے اپنائے تو فضائی آلودگی 50 فیصد تک کم ہو سکتی ہے۔

موسمیاتی فنڈز کی کمی اور عالمی وعدوں سے انحراف

موسمیاتی تبدیلیوں کے ماہر صحافی داؤد خان نے صورتحال کی سنگینی کو مزید واضح کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہر سال خراب موسم کے باعث ہزاروں لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ داؤد خان نے کہا کہ پاکستان کے بڑے شہروں میں ہوا کے خراب معیار کی پیمائش کے لیے آلات نصب کیے گئے ہیں۔

انہوں نے خبر کدہ سے بات کرتے ہوئے عالمی سطح پر فنڈنگ کی کمی کو بھی اجاگر کرتے ہوئے کہا: "پاکستان نے اقوام متحدہ میں یہ بات اٹھائی تھی کہ جو ممالک غریب ہیں، ان کے لیے موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے نقصانات کے ازالے کے لیے ایک فنڈ قائم کیا جائے۔ پاکستان بھی ان ترقی پذیر ممالک میں شامل ہے، جہاں مالی اور جانی نقصانات بھی بہت زیادہ ہیں۔ اقوام متحدہ نے فنڈ تو بنایا لیکن اس فنڈ میں ایک روپیہ بھی نہیں آیا اور ڈونلڈ ٹرمپ کے آنے کے بعد موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے مختص زیادہ تر فنڈز ختم کر دیے گئے جس کے اب بہت برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔”

انہوں نے مزید بتایا کہ 2022 کے سیلاب کے بعد جس میں پاکستان کو تقریباً 33 ارب ڈالر کا نقصان ہوا، جنیوا کانفرنس میں پاکستان کے لیے بہت ساری امداد کے وعدے کیے گئے تھے لیکن اب تک آدھے فنڈز بھی پاکستان کو موصول نہیں ہوئے۔

داؤد خان نے فنڈز کی عدم دستیابی کے نتائج بتاتے ہوئے کہا:

"فنڈز کی کمی کی وجہ سے پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے بنائی گئی ایجنسیاں ٹھیک طرح سے کام نہیں کر رہیں کیونکہ عالمی فنڈز یا تو ختم ہو گئے ہیں یا ان میں بہت زیادہ کمی کر دی گئی ہے۔”

داؤد خان نے پاکستانی عوام کو مشورہ دیا کہ وہ ایسی توانائی کے ذرائع کی طرف جائیں جو موسمیاتی تبدیلیوں میں زیادہ حصہ نہ ڈالیں اور ساتھ ہی عام لوگوں میں اتنی آگاہی ہونی چاہیے کہ وہ ندیوں اور نالوں کے کناروں یا ان کے قریب گھر نہ بنائیں تاکہ سیلاب کے وقت نقصان کو کم سے کم کیا جا سکے۔

متعلقہ خبریں

مزید پڑھیں