وزیر اعظم شہباز شریف نے وزارت خارجہ کو ایران میں ہفتے کے روز قتل ہونے والے آٹھ پاکستانی شہریوں کی لاشیں واپس لانے کے احکامات جاری کر دیئے ہیں۔
یہ پاکستانی شہری ایران میں پاکستانی سرحد سے ملحقہ صوبے سیستان اور بلوچستان کے علاقے مہرستان میں گاڑیوں کی مرمت کرنے والی دکان میں ملازم تھے۔ تمام 8 افراد کا تعلق پنجاب کے علاقے بہاولپور سے ہے۔ یہ پاکستانی اسی دکان میں رہتے تھے جہاں وہ کام کرتے تھے۔
ہفتے کے روز مسلح افراد دکان میں داخل ہوئے جہاں انہوں نے مزدوروں باندھ کر ان پر فائرنگ کی جبکہ حملہ آور موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ قتل ہونے والے آٹھ افراد میں سے پانچ کی شناخت دلشاد، نعیم، جعفر، دانش اور ناصر کے نام سے ہوئی ہے۔ دو مقتولین، دلشاد اور نعیم باپ بیٹے ہیں۔
کالعدم بلوچ نیشنل آرمی نے حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
خبر کدہ سے بات کرتےہوئے ایک سیکیورٹی عہدیدار نے اس واقعہ کےبارے میں کہا کہ ‘واقعہ ایرانی سرزمین میں دہشت گردوں کی موجودگی اور وہاں کام کرنے والے غیر ملکی شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنانے میں ایرانی سیکورٹی اداروں کی ناکامی کے بارے میں سنگین سوالات اٹھاتا ہے-‘
وزیر اعظم شہباز شریف نے حملے پر افسوس اور تشویش کا اظہار کیا۔ ایک بیان میں شہباز شریف نے کہا کہ دہشت گردی ایک ناسور ہے جو خطے کے تمام ممالک کے لیے خطرہ ہے۔ انہوں نے ایرانی حکومت سے ذمہ داران کو تلاش کرنے اور انہیں سزا دینے کا بھی مطالبہ کیا۔ وزیر داخلہ محسن نقوی نے بھی حملے کی مذمت کی اور کہا کہ حکومت متاثرین کے اہل خانہ کے ساتھ کھڑی ہے۔
پاکستان میں ایرانی سفارت خانے نے بھی دہشت گردی کو خطے کے لیے ایک ‘دائمی مصیبت اور مشترکہ خطرہ’ قرار دیتے ہوئے مذمت جاری کی۔ سفارت خانے نے مزید کہا کہ دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے تمام ممالک کی اجتماعی اور مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔
یہ رواں سال ایران میں پاکستانی شہریوں پر پہلا حملہ نہیں ہے۔ نامعلوم افراد نے 27 جنوری کو اسی صوبے کے شہر سراوان کے علاقے سرکان میں نو پاکستانی مزدوروں کو قتل کر دیا تھا۔ مزدور ملتان، مظفر گڑھ اور بہاولپور سے تعلق رکھتے تھے۔
جنوری کے حملے کی کسی نے ذمہ داری قبول نہیں کی تھی۔ مقتولین کی لاشوں کو چار دن بعد تفتان سے ملتان ایئر لفٹ کیا گیا تھا۔