بلوچستان میں افغان مہاجرین کی واپسی کا عمل غیر معمولی تیزی سے جاری ہے جہاں صوبائی دارالحکومت کوئٹہ اور اس کے گرد و نواح سے ہزاروں افغان خاندان اپنے وطن افغانستان واپس جا رہے ہیں۔ معتبر ذرائع اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران تقریباً 11 ہزار 600 سے زائد افغان مہاجرین کو قانونی اور باوقار طریقے سے افغانستان واپس بھیجا گیا ہے۔ یہ وسیع پیمانے پر عمل قومی سلامتی، دستاویزات کی تصدیق، اور غیر قانونی مہاجرین کی واپسی کے حکومتی منصوبے کے تحت ہو رہا ہے جس نے بلوچستان میں افغان کمیونٹی پر شدید دباؤ بڑھا دیا ہے۔
یہ تازہ ترین اعداد و شمار اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (UNHCR) اور بین الاقوامی تنظیم برائے ہجرت (IOM) کی رپورٹس سے ملتے جلتے ہیں۔ ان رپورٹس کے مطابق اکتوبر 2023 سے لے کر اب تک پاکستان سے 15 لاکھ سے زائد افغان شہری واپس جا چکے ہیں جس میں بلوچستان کا حصہ نمایاں ہے۔ صوبے میں افغان مہاجرین کی رجسٹرڈ تعداد تقریباً 3 لاکھ 13 ہزار تھی جو اب تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ آزاد ذرائع کے مطابق، ملک بھر سے اب تک 16 لاکھ سے زائد افغانی واپس جا چکے ہیں۔ صوبائی حکام کے مطابق گزشتہ ایک ماہ میں بلوچستان سے 40 ہزار سے زائد مہاجرین واپس ہو چکے ہیں جو صوبے کی مجموعی واپسی کا 25 فیصد سے زیادہ ہے۔ ملکی سطح پر اب تک 16 لاکھ 96 ہزار سے زائد افغان مہاجرین واپس جا چکے ہیں جو UNHCR اور IOM کی 2025 کی رپورٹس سے مطابقت رکھتے ہیں۔ ان میں سے بلوچستان سے تقریباً 3 لاکھ 50 ہزار کا حصہ ہے جو صوبے کی کل افغان آبادی کا 11 فیصد بنتا ہے۔
گزشتہ ہفتے میں بلوچستان سے 50 ہزار سے زائد واپسی ہوئی جبکہ خیبر پختونخوا اور پنجاب کے مقابلے میں یہاں کا عمل زیادہ منظم اور تیزی سے ہو رہا ہے۔
کوئٹہ کی مشہور افغان بستی ایسٹرن بائی پاس اور دیگر کیمپوں جیسے بلیلئی، چغتائی، اور پشین سے ہزاروں افغان خاندان اپنے گھر، دکانیں، اور اثاثے چھوڑ کر واپس جا رہے ہیں۔ کوئٹہ کے ڈپٹی کمشنر مہر اللہ بادینی نے بتایا کہ "یہ واپسی رضاکارانہ اور قانونی ہے لیکن سیکورٹی اور معاشی مسائل کی وجہ سے تیز ہوئی ہے۔ افغان بستی میں 35-40 سال سے رہنے والے خاندان اب اپنے گھر کم قیمتوں پر بیچ رہے ہیں، جو مقامی معیشت پر بھی اثر انداز ہو رہا ہے۔” UNHCR کی رپورٹ کے مطابق، بلوچستان میں 16 افغان کیمپوں کو بند کیا جاچکا ہے، جن میں کوئٹہ، لورالائی، اور کالا سیف اللہ شامل ہیں۔ یہ کیمپ ہزارہ، پشتون، اور دیگر برادریوں کے ہزاروں مہاجرین کے لیے آخری پناہ گاہیں تھے۔
حکومت بلوچستان نے 49 ہولڈنگ سنٹرز قائم کیئے ہیں، جن میں کوئٹہ، چغتائی اور پشین کے تین سنٹرز مہاجرین کی اسکریننگ اور دستاویزات کی جانچ کے لیئے استعمال ہو ئے ہیں۔ وفاقی وزارت داخلہ کے مطابق، یہ واپسی تین مراحل میں ہو رہی ہے: پہلے غیر دستاویزی، پھر اے سی سی (ACC) ہولڈرز، اور اب پی او آر (PoR) کارڈ ہولڈرز۔ نومبر 2025 تک، صوبے میں 54 کیمپوں کو بند کرنے کا ہدف مکمل ہو چکا ہے، جس سے ہزاروں خاندان متاثر ہوئے ہیں۔
انسانی پہلو اور بین الاقوامی امداد
افغان مہاجرین کی واپسی بلوچستان کی معیشت اور سماجی ڈھانچے کو بری طرح متاثر کر رہی ہے جہاں افغانوں نے دکانیں، رہائشی اسکیمز، اور چھوٹے کاروبار قائم کیئے تھے۔ UNHCR کی رپورٹ بتاتی ہے کہ واپس جانے والے 70 فیصد خاندانوں میں عورتیں اور بچے شامل ہیں، جو افغانستان پہنچ کر غربت، بے روزگاری، اور طالبان کے قوانین کا شکار ہو رہے ہیں۔ ایک حالیہ IOM سروے کے مطابق، پاکستان سے واپس آنے والے 109 ہزار مہاجرین (اپریل-مئی 2025) میں سے 40 فیصد بلوچستان سے تھے، اور انہیں سرحد پر خوراک، صحت، اور رہائش کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ بلوچستان میں مقامی کاروباری برادری کا کہنا ہے کہ افغانوں کی واپسی سے مقامی مارکیٹس خالی ہو رہی ہیں، اور ہزاروں نوکریاں ختم ہو گئی ہیں۔
حکومت پاکستان اور بلوچستان انتظامیہ کا موقف ہے کہ یہ واپسی قومی سلامتی اور وسائل کی بچت کے لیئے ضروری ہے، اور تمام عمل باوقار رکھا جا رہا ہے۔ وزیر داخلہ نے حال ہی میں اعلان کیا کہ 2025 کے آخر تک تمام غیر قانونی مہاجرین کی واپسی مکمل ہو جائے گی، جس میں بلوچستان کا حصہ 20 فیصد سے زائد ہوگا۔ اس چیلنج کے پیش نظر، UNHCR نے 2025 کے لیئے 2.4 بلین ڈالر کی امداد طلب کی ہے تاکہ واپس جانے والوں کی بحالی ممکن ہو سکے۔ بلوچستان صوبے کو افغان مہاجرین کی واپسی میں کلیدی کردار ادا کرنا پڑ رہا ہے، جو صوبے کی معاشی اور سماجی زندگی کو یکسر بدل رہا ہے۔