پاکستان کے موجودہ سیکیورٹی منظرنامے میں جہاں دہشت گردی اور شہری جرائم عوام کی زندگی کو داؤ پر لگا رہے ہیں، امن کی بحالی کے لیے کسی بھی کوشش کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔ تاہم، ایک حالیہ جرگے کے اعلامیے اور حکومتی ردعمل نے ایک تلخ حقیقت کو واضح کر دیا ہے کہ قومی سلامتی کو بھی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے اور صوبائی ذمہ داریوں کو آئینی تقاضوں کے برعکس وفاق پر ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اختیارات کی تقسیم اور "عزمِ استحکام” کی حقیقت
پاکستان کا آئین خصوصاً اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاق اور صوبوں کے درمیان اختیارات کی ایک واضح لکیر کھینچتا ہے۔ وفاقی حکومت قومی سلامتی، خارجہ پالیسی اور بجٹ کے بڑے حصے کی نگرانی کرتی ہے جبکہ پولیس، داخلہ امور، معدنیات اور روزمرہ انفورسمنٹ خالصتاً صوبائی دائرہ کار میں آتے ہیں۔
جرگے کا یہ اعلان کہ وہ "دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں اور اس کے خلاف ٹھوس حکمت عملی اپنائیں گے” کوئی نئی ایجاد نہیں۔ نیشنل ایکشن پلان (NAP) جو 2014 سے دہشت گردی کے خلاف قومی حکمت عملی ہے، پہلے سے ہی نافذ العمل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حالیہ "عزمِ استحکام” آپریشن اسی پلان کا تسلسل ہے۔ اس آپریشن کو وفاقی ایپکس کمیٹی نے منظوری دی تھی جس میں سندھ سمیت تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ شامل تھے۔ یہ آپریشن وفاق اور صوبے مل کر چلا رہے ہیں جس میں انٹیلی جنس شیئرنگ، جوائنٹ آپریشنز اور ٹارگٹڈ ایکشنز شامل ہیں۔ جرگے نے اسے "اپنی ایجاد” بنا کر پیش کیا، مگر یہ محض ایک قومی پالیسی کا اعادہ ہے۔ عملی کام کا ریکارڈ موجود ہے جیسے کہ حالیہ مہینوں میں بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں ہونے والے کامیاب آپریشنز۔
پولیس اور سی ٹی ڈی کی قیادت: آئینی ذمہ داری
اعلامیہ میں پولیس اور سی ٹی ڈی کو لیڈ رول دینے کا مطالبہ کیا گیا مگر یہ ایک آئینی حقیقت ہے نہ کہ نیا مطالبہ۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد پولیس مکمل طور پر صوبائی موضوع ہے۔ سندھ پولیس داخلی سلامتی میں لیڈ کرتی ہے اور قانون کے مطابق ضرورت پڑنے پر رینجرز یا فوج سے مدد طلب کی جاتی ہے۔ وفاقی بیان نے بالکل بجا تنقید کی ہے کہ "نیا اعلان کرنے کے بجائے اپنی پولیس کو بااختیار اور جوابدہ بنائیں۔” سندھ پولیس کے پاس 1 لاکھ سے زائد اہلکار ہیں مگر کرپشن اور سیاسی مداخلت کی شکایات عام ہیں۔ صوبائی حکومت کو ہوم ڈیپارٹمنٹ کے ذریعے ٹریننگ، آلات اور احتساب کا نظام مضبوط کرنا چاہیے، نہ کہ وفاق پر الزام تراشی کرے۔
مالی معاونت کی حقیقت: NFC شیئر اور بجٹ کی ترجیحات
جرگے کا یہ مطالبہ کہ "پولیس اور سی ٹی ڈی کو خصوصی مالی معاونت دی جائے” بھی حقائق سے آنکھیں چرانے کے مترادف ہے۔ فنانسنگ کا بنیادی ذریعہ NFC ایوارڈ ہے، جو آئین کے آرٹیکل 160 کے تحت ایک فارمولے کے ذریعے صوبوں کو ملتا ہے۔ سندھ کو رواں سال اربوں روپے ملے ہیں۔ صوبے کو چاہیے کہ وہ اپنے فنانس ایکٹ میں پولیس کو مناسب الاٹمنٹ کرے۔ سندھ کے بجٹ میں تعلیم اور صحت پر زیادہ خرچ دکھایا جاتا ہے جبکہ سیکیورٹی پر کم۔ وفاق PSDP سے اضافی فنڈز دے سکتا ہے، مگر یہ صوبائی ترجیحات کی بنیادی ذمہ داری سے مستثنیٰ نہیں کرتا۔ وفاقی تنقید درست ہے کہ "بجٹ میں دکھائیں، نعرے نہ لگائیں۔”
روزمرہ کے جرائم اور وسائل: صوبائی دائرہ کار
بھتہ خوری اور شہری جرائم: "بھتہ خوری ختم کریں” کا نعرہ پولیس اور ہوم ڈیپارٹمنٹ کا روزمرہ کا کام ہے۔ کراچی میں بھتہ خوری کی وارداتیں رپورٹ ہوتی ہیں مگر ریڈز، مقدمات اور پراسیکیوشن میں کمی ہے۔ وفاق کسٹمز اور ایف بی آر سے اسمگلنگ روک رہا ہے، مگر شہروں کے اندر یہ پولیس کی ذمہ داری ہے۔ عوام کو پریس کانفرنسیں نہیں، ایکشن چاہیے۔
غیر قانونی معدنیات: مائننگ اور لیزنگ صوبائی دائرہ کار ہیں۔ سندھ میں تھر کوئلہ جیسے وسائل موجود ہیں، اور غیر قانونی نکاسی روکنے کے لیے صوبائی قوانین کا نفاذ ضروری ہے۔ وفاق معاونت دے سکتا ہے، متبادل نہیں۔
ان کیمرہ بریفنگ اور چیک پوسٹس: حساسیت اور سیاست
جرگے نے "ان کیمرہ بریفنگ کروائیں” کا مطالبہ کیا، حالانکہ قومی سلامتی پر ان کیمرہ سیشن باقاعدگی سے ہوتے ہیں، جن میں اپوزیشن بھی شریک رہی ہے۔ "بریفنگ دلواؤ” کی سیاست کے بجائے سنجیدگی سے شرکت درکار ہے۔ یہ سوال اہم ہے کہ خیبرپختونخوا کے چیف منسٹر (جو جرگے میں شریک تھے) نے پچھلے مہینے سیکیورٹی کمیٹی کی میٹنگ کا بائیکاٹ کیوں کیا۔؟
چیک پوسٹس فیلڈ رسک اسیسمنٹ سے ہٹائی جاتی ہیں۔ دہشت گردی کی شدت کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں یکسر ہٹانا غیر ذمہ دارانہ ہے، جو "عزمِ استحکام” کے آپریشنز کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
خارجہ پالیسی اور آئینی حدود
جرگے کا "خارجہ پالیسی میں صوبے سے مشاورت” کا مطالبہ بھی آئینی لاعلمی کا عکاس ہے۔ خارجہ امور وفاقی فہرست میں شامل ہیں۔ مشاورت کے پلیٹ فارمز جیسے کہ CCI موجود ہیں مگر پالیسی کا تعین وفاق کا حق ہے۔ نعرہ آئین کو نہیں بدل سکتا۔
یہ سخت بیان، جو جرگے کو آئینہ دکھاتا ہے، خلاصہ پیش کرتا ہے: زیادہ تر نکات قومی پالیسیوں کا اعادہ ہیں، صوبائی ذمہ داریوں کو وفاق پر ڈالنے کی کوشش، یا آئینی حقائق سے گریز۔ عوام دھماکوں اور بھتہ خوری سے تنگ ہیں۔ انہیں نعرے نہیں، عملی ایکشن چاہیے۔ ضرورت ہے کہ آئین پڑھا جائے، بجٹ میں سیکیورٹی کی ترجیحات بڑھائی جائیں، پولیس کو مضبوط کیا جائے اور سیاست بند ہو۔ امن جرگہ ایک آغاز ہو سکتا تھا مگر حقائق سے منہ موڑ کر یہ صرف ایک شور بن گیا۔ عوام کا سوال برقرار ہے، کب عملی کام شروع ہوگا؟