خیبر پختونخوا اسمبلی میں منعقدہ امن جرگے کا مشترکہ اعلامیہ جاری کر دیا گیا ہے جس پر اسپیکر سمیت 21 جرگہ ممبران کے دستخط موجود ہیں۔ اعلامیے میں صوبے کو درپیش دہشت گردی، امن و امان، بین الصوبائی تعلقات اور مالی حقوق کے مسائل کے حل کے لیے ٹھوس تجاویز دی گئی ہیں۔
امن جرگے نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے صوبائی اسمبلی کو اعتماد میں لینے اور امن و امان سے متعلق اسمبلی کی قرار دادوں پر فوری عمل درآمد کا مطالبہ کیا ہے۔ اعلامیہ کے مطابق جرگہ تجویز کرتا ہے کہ صوبائی حکومت اور اسمبلی ایک صوبائی ایکشن پلان مرتب کریں۔ امن و امان کو یقینی بنانے کے لیے پولیس اور سی ٹی ڈی کو داخلی سلامتی کی قیادت سونپی جائے گی اور ان اداروں کو مضبوط بنایا جائے گا۔
دہشت گردی اور شورش سے متعلق کارروائیوں کے قانونی بنیادوں اور تفصیلات کے لیے خیبر پختونخوا اسمبلی کو سیکیورٹی اداروں کی ان کیمرہ بریفننگ دی جائے گی۔ اس کے ساتھ ہی، غیر قانونی محصولات، بھتہ خوری، اور شورش زدہ علاقوں میں معدنیات کی غیر قانونی نکاسی کے خاتمے کے لیے ایک مربوط پالیسی کی تشکیل پر زور دیا گیا ہے۔
اعلامیے میں صوبائی سطح پر امن کے لیے فورمز قائم کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے جن میں غیر سرکاری ارکان شامل ہوں اور شہری سطح پر پولیس، کنٹونمنٹ اور بلدیاتی اداروں کے مابین ہم آہنگی کے لیے سیلز قائم کیے جائیں۔ ان سیلز کا ایک اہم مقصد چیک پوسٹوں کے خاتمے کے لیے مقررہ وقت پر منصوبے قائم کرنا ہوگا۔
پاک افغان خارجہ پالیسی کے حوالے سے، جرگے نے وفاق سے مطالبہ کیا ہے کہ پالیسی کی تیاری میں صوبائی حکومت سے مشاورت کی جائے اور سفارتی کاری کو ترجیح دی جائے۔ ایک اہم اقتصادی قدم کے طور پر پاک افغان کے تمام تاریخی تجارتی راستوں کو فلفور کھولنے کی سفارش کی گئی ہے۔
داخلی سطح پر امن جرگے کی تجویز ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومت کے مابین موجود تناؤ کو کم کیا جائے اور مشترکہ مفاد کونسل کا اجلاس آئینی مدت کے مطابق بلایا جائے۔
اعلامیے کا ایک بڑا حصہ صوبے کے مالی استحکام پر مرکوز ہے۔ جرگے نے مطالبہ کیا ہے کہ وفاق کے ذمے صوبے کی آئینی مالی حقوق کی مد میں واجب الادا رقم فوری طور پر جاری کی جائے۔
مالیاتی نظام کو بہتر بنانے کے لیے سفارش کی گئی ہے کہ نیشنل فنانس کمیشن کو صوبائی فنانس کے ساتھ منسلک کیا جائے۔ اس کے علاوہ، مقامی حکومتوں کے استحکام اور مالی تحفظ کے لیے متعلقہ قوانین میں ترامیم کرنے پر بھی زور دیا گیا ہے۔
غذا کی ترسیل یقینی بنانے کے لیے مطالبہ کیا گیا ہے کہ آرٹیکل 151 (بین الصوبائی تجارت) پر عملداری کی جائے تاکہ خیبر پختونخوا کو گندم کی ترسیل بروقت ہو سکے۔