خبر کدہ اسپیشل : نیا وزیراعلی منتخب کروانے کا امتحان اور خیبر پختونخوا کا انتظامی و سیاسی بحران

| شائع شدہ |11:34

پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات تو اپنی جگہ موجود رہے ہی ہیں مگر اب پی ٹی آئی علی امین گنڈاپور کی جگہ نیا وزیراعلی ایک ایسے وقت میں منتخب کروانے جا رہی ہے کہ جس کے نام پر وفاق کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ بھی بلواسطہ طریقے سے اپنے عدم اعتماد کا اظہار کر چکی ہے۔ “ایک ایسی صوبائی حکومت جو دہشت گردی کے خلاف آپریشن کی مخالفت کرے وہ مجھے نا قابل قبول ہے” ڈی جی آئی ایس پی آر یفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کے یہ الفاظ نامزد ور اعلی سہیل آفریدی کے حوالے سے اسٹیبلشمنٹ کی رائے کو واضح کرنے کے لئے کافی ہیں جن کے انتخاب کے لیے پی ٹی آئی قیادت اور اسپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی نے آج صوبائی اسمبلی کا اجلاس طلب کر رکھا ہے۔


وہ سہیل آفریدی جو کہ صوبے میں آپریشن پر ایک سخت گیر موقف رکھنے کی وجہ سے عمران خان کی وزیراعلی کے عہدے کیلئے اولین چوائس بتائے جاتے ہیں ان کو اپنے انتخاب سے قبل ہی اعتماد اور قبولیت کے ایک اہم ترین چیلنج کا سامنا ہے۔ یہ چیلنج اب صرف نئے وزیراعلی کی انتخاب تک محدود نہیں رہا ہے بلکہ پورا صوبہ اس وقت ایک انتظامی اور سیاسی بحران سے دوچار دکھائی دے رہا ہے۔ خراب اور بری گورننس اور پی ٹی آئی کی صوبائی و قومی قیادت سے ساتھ مختلف ایشوز ہر ختم نہ ہونے والے اختلافات کا جو بھاری بھرکم بوجھ مستعفی ہونے والے علی امین گنڈاپور اپنے پیچھے چھوڑ گئے ہیں وہ نامزد وزیراعلی سہیل آفریدی کو ورثے میں ملا ہے۔ صوبے میں گورننس بہتر بنانے اور صوبائی قیادت کو ساتھ لے کر چلنے کے علاوہ سہیل آفریدی کو اسٹیبلشمنٹ کا اعتماد جیتنے کا امتحان بھی پاس کرنا ہو گا۔ کیا سہیل آفریدی پرفارمنس کے معاملے میں علی امین گنڈاپور ہی ثابت ہو نگے یا ان کی مارکس شیٹ بہتر ہو گی یہ تو وقت ہی فیصلہ کریگا مگر اس سے قبل ان کو اس سارے ماحول میں نمبر گیم پورا ہونے کے باوجود اپنے انتخاب کا ایک رسمی چیلنج بھی درپیش ہے۔

گرم ہوتا پاک افغان بارڈر : نئے وزیراعلی کیلئے نیا درد سر !

سہیل آفریدی کے وزارت اعلی کے منصب پر براجمان ہونے کی ٹائمنگ اس تناظر میں خاصی اہم ہو گی کہ وہ ایک ایسے وقت میں صوبے کی باگ دوڑ سنبھال رہیں ہونگے کہ جب افغانستان کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی آنے کے ساتھ ساتھ بارڈر بھی گرم ہو چکا ہے اور افغانستان کی طرف سے پاکستانی چیک پوسٹس پر حملوں کے بعد پاکستان کے بھرپور جواب نے اس کے لیے پشیمانی کا سامان بھی پیدا کر دیا ہے۔ جنگ کے ماحول میں بارڈر علاقوں کے رہائشیوں کی دیکھ بھال کے علاوہ فوجی قیادت کے ساتھ ایک بہترین کوارڈینیشن بھی بطور وزیر اعلی سہیل آفریدی کو ممکن بنانا ہو گی تاکہ سیاسی اور عسکری قیادت ہم آہنگ ہو کے اس نئے سیکورٹی چیلنج کا مقابلہ کرے۔

علی امین گنڈاپور کے استعفی کی منظوری : معمہ برقرار

گورنر کی جانب سے علی امین گنڈاپور کا استعفیٰ منظور کیے بغیر نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب پر اپوزیشن جماعتوں نے سوالات اٹھا دیے ہیں۔ اس حوالے سے جے یو آئی ف کے پارلیمانی لیڈر اور وزیراعلیٰ کے امیدوار مولانا لطف الرحمان نے یہ موقف اپنایا ہے کہ گورنر نے ابھی تک استعفیٰ منظور نہیں کیا ہے اس لیے وزیراعلیٰ کے انتخاب کا عمل غیرآئینی ہے تاہم امیدوار لانا ہمارا جمہوری حق ہے اور اپوزیشن متفقہ امیدوار لائے گی۔ مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی اور وفاقی وزیر امیر مقام کو بھی علی امین گنڈاپور کے استعفے کی منظوری کے بغیر ہی نئے وزیر اعلی کے انتخاب پر اعتراض ہے

نیا وزیراعلی : نمبرز گیم پی ٹی آئی کے حق میں

145 اراکین کے ہاؤس میں اسوقت پی ٹی آئی کو سنی اتحاد کونسل سمیت 92 اراکین کی بھاری بھرکم حمایت حاصل ہے جو کہ دو تہائی اکثریت سے تو کچھ کم نمبر کے مگر وزیراعلی منتخب کروانے کے لیے درکار 73 ووٹوں کو انسانی پورا کرنے کے لیے کافی ہے۔ دوسرے جانب اپوزیشن جماعتوں کے اراکین کی تعداد 53 ہے اور انہیں اپنی صفوں سے وزیراعلی منتخب کروانے کے لیے مزید 20 ووٹ درکار ہیں

اپوزیشن کا متفقہ امیدوار : فیصلہ نہ ہو سکا

اپوزیشن جماعتوں کی وزارت اعلیٰ کے لیے متفقہ امیدوار میدان میں اتارنے پرمشاورت جاری ہے تاہم وزارت اعلیٰ کے امیدوار کے لیے ابھی تک کسی ایک امیدوار کے نام پر اتفاق نہیں ہو سکا ہے۔ دوسری جانب تحریک انصاف کی طرف سے سہیل آفریدی، ن لیگ کی جانب سے سردار شاہ جہاں یوسف، جے یو آئی (ف) سے مولانا لطف الرحمان جبکہ پیپلزپارٹی کی جانب سے ارباب زرک نے کاغذات نامزدگی جمع کروا دیے ہیں جبکہ اے این پی کی طرف سے کسی نے کاغذات جمع نہیں کروائے ہیں اور وزیراعلی کے انتخاب میں حصہ نہ لینے کا اعلان کیا ہے

متعلقہ خبریں

مزید پڑھیں