ایکسکلوزیو: باجوڑ میں حا لیہ آپریشن، ٹارگٹ کیا ہے؟

| شائع شدہ |18:17

باجوڑ میں فوجی آپریشن کے باعث ہزاروں لوگ گھروں سے نکلنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ ضلعی انتظامیہ نے متاثرین کے لیے 107 سے زائد سرکاری سکول اور کالج عارضی پناہ گاہوں میں تبدیل کردیے ہیں، جہاں 4 ہزار سے زیادہ لوگ رہائش پذیر ہیں۔ شدید گرمی میں ان پناہ گاہوں میں نہ پانی ہے نہ بجلی۔

پی ڈی ایم اے کے مطابق سپورٹس کمپلیکس میں 500 خیمے لگائے گئے ہیں جن میں 334 خاندانوں کے 2400 افراد مقیم ہیں۔

متاثرین کا کہنا ہے کہ نہ پینے کا صاف پانی دستیاب ہے نہ روشنی، اور کھانے کا انتظام ناکافی ہے۔ مقامی لوگ اور فلاحی تنظیمیں ہی متاثرین کو کھانا فراہم کر رہے ہیں۔ ضلع انتظامیہ شکایات کو مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کرتی ہے کہ 18 گھنٹے بجلی، پانی کے ٹینکر اور انٹری کے مطابق کھانا فراہم کیا جا رہا ہے۔

کرفیو اور اپریشن کا آغاز

یہ صورتحال 29 جولائی سے شروع ہوئی جب رات 2 بجے ڈپٹی کمشنر شاہد علی خان نے تحصیل ماموند کے 16 دیہات میں 3 روزہ کرفیو نافذ کرنے اور ٹارگیٹڈ فوجی آپریشن کا اعلان کیا ہے۔ مقامی ذرائع کے مطابق اس کارروائی میں 3 عام شہری جاں بحق اور چند افراد زخمی ہوئے، تاہم اس کاروائی میں گیارہ دہشت گرد ہلاک جبکہ پانچ سیکیورٹی اہکار زخمی ہوئے تھے۔

ایک سیکیورٹی عہدیدار نے خبر کدہ کو بتایا کہ باجوڑ میں 400 سے زائد دہشت گرد موجود ہیں، جن میں سے زیادہ تر غیر ملکی اور افغان ہیں۔ سرکاری ذرائع سے اب تک ہلاک ہونے والے تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں کی تعداد کے بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔

سیکیورٹی امور کے ماہر اور سابق سیکٹری داخلہ ڈاکٹر آختر علی شاہ نے حال ہی میں خبرکدہ سے گفتگو میں بتایا  کہ انسداد دہشتگردی کاروائیوں میں عسکریت پسند گروہوں کے سپلائی چین اور ریکروٹمنٹ پرنظر رکھنی ہو گی اور اس کو موثر طریقے سے ختم کرنا ہوگا جس سے ان گروہوں کی کمر ٹوٹ جائیگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ بجائے اس کے کہ ہم علاقے خالی کرکے کاروائیاں کریں ہمیں قابل اعتماد خفیہ اطلاعات کے بنیادوں پر کاروائیاں جاری رکھنا چاہئے جس سے کم نقصانات پر زیادہ موثر نتیجہ حاصل ہو گا۔ انہوں نے علاقے خالی کرنے پر اس خدشے کا اظہار کیا کہ عام لوگوں کے ساتھ عسکریت پسند علاقے سے نکل جائینگے۔   


عسکریت پسندوں اور سیکیورٹی فورسز کے ساتھ مذاکرات

باجوڑ میں شہری ہلاکتوں کے بعد سیاسی و سماجی رہنماؤں نے احتجاج کیا ہے۔ دو روزہ احتجاج کے بعد فیصلہ ہوا کہ فوج اور طالبان دونوں سے مذاکرات کیے جائیں۔ اس کے لیے 50 رکنی امن جرگہ بنایا گیا، جس کی سربراہی امیر جماعت اسلامی باجوڑ، صاحبزادہ ہارون الرشید کر رہے تھے۔ فرقین کے 12 دن میں 7 اجلاس ہوئے مگر کوئی نتیجہ نہ نکلا۔

مذاکرات کے حوالے سے سابق ممبر قومی اسمبلی اور پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما اخونزادہ چٹان نے خبر کدہ کو بتایا ہے کہ مذاکرات سے ہی ہر مسئلہ کا حل ممکن بنایا جاتا ہے چاہے مقامی مسئلہ ہو یا بین الاقوامی۔ انہوں نے بتایا کہ یہاں پر موجود عسکریت پسند اکثر و پیشتر افغستان سے ہیں یا دوسرے علاقوں سے یہاں پر آئے ہیں۔  

آٹھ اگست کو باجوڑ ضلعی انتظامیہ نے تحصیل ماموند اور تحصیل ناوگی کے کسانوں کو ہدایت دی کہ سڑک کے کنارے سے 100 میٹر کے اندر مکئی اور جوار کی فصل 12 اگست تک کاٹ لیں۔ کسان ولی رحمان کے مطابق یہ ممکن نہیں تھا، کیونکہ 3 دن میں لاکھوں روپے کی تیار فصل کاٹنا ناممکن ہے۔

11 اگست کو ایک اور نوٹیفکیشن جاری ہوا، جس کے مطابق تحصیل ماموند اور پورے باجوڑ کی مرکزی شاہراہوں پر صبح 11 سے رات 11 بجے تک کرفیو نافذ کیا گیا ہے، جو 14 اگست تک جاری رہا۔

نقل مکانی کرنے والے کئی لوگ کرفیو کے باعث گھروں میں محصور ہو گئے ہیں۔

تین روز قبل شروع ہونے والے آپریشن میں بدھ کے روز کچھ نرمی آگئی ہے اور تحصیل خار کے مختلف علاقوں میں کرفیو ختم کردی گئی ۔ البتہ ماموند کے بیشتر علاقوں میں اب بھی کرفیو نافذ ہے ۔ منگل کے روز ایراب ماموند میں گھر پر مارٹر گولہ گرنے سے تین افراد شہید اور دو زخمی ہوئے تھے جس کے خلاف بادیسیا ماموند میں احتجاجی مظاہرہ جاری جبکہ دوسری طرف قومی امن جرگہ باجوڑ پریس کلب میں جاری ہے۔

باجوڑ میں حالیہ دہشت گردانہ واقعات


باجوڑ میں حالیہ مہینوں کے دوران حملوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، جہاں مقامی لوگ سیکیورٹی اہلکاروں کی کارروائیوں سے شہریوں کو پہنچنے والے نقصان پر اعتراضات اٹھا رہے ہیں۔ اسی سال فروری میں ایک پولیو ویکسینیشن ٹیم کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکار کو نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کر کے شہید کر دیا۔ یہ حملہ انسداد پولیو مہم کے دوران ہوا جب نامعلوم حملہ آوروں نے ڈیوٹی پر موجود اہلکار پر اندھا دھند فائرنگ کر دی۔ جون میں، نامعلوم شرپسندوں نے قبائلی امور کے وزیر مملکت، مبارک زیب خان کے گھر پر راکٹ حملہ کیا، یہ ان پر دوسرا حملہ تھا۔ اس سے قبل مئی میں، مبینہ دہشت گردوں نے ایک دیسی ساختہ بم (آئی ای ڈی) سے ان کے گھر کا مرکزی دروازہ اڑا دیا تھا۔

گزشتہ ماہ باجوڑ کے نواگئی علاقے میں ایک بم دھماکے میں مقامی حکام کے مطابق کم از کم پانچ افراد ہلاک اور 16 زخمی ہو گئے۔ یہ دھماکہ خار تحصیل میں صادق آباد پھاٹک کے قریب نواگئی روڈ پر ایک سرکاری گاڑی کو نشانہ بنا کر کیا گیا۔ مرنے والوں میں اسسٹنٹ کمشنر نواگئی فیصل اسماعیل، تحصیلدار عبدالوقیل، کانسٹیبل زاہد، اور ایک راہ گیر فضل منان شامل تھے۔ سب انسپکٹر نور حکیم، جو حملے میں شدید زخمی ہوئے تھے، پشاور منتقلی کے دوران زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے۔ چند روز بعد، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے باجوڑ سے سابق امیدوار برائے قومی اسمبلی مولانا خان زیب اور دو دیگر افراد کو خار تحصیل، کے پی کے صدر مقام سے محض چند قدم کے فاصلے پر شیندئی موڑ پر نامعلوم حملہ آوروں نے گولی مار کرشہید کر دیا ہے۔

متعلقہ خبریں

مزید پڑھیں