افغانستان میں موجود پاکستانی دہشتگرد گروہوں میں آپس کی رنجشیں بڑھنے لگی ہیں۔ کالعدم تحریک طالبان کی حکمت عملی کے علاوہ کمانڈروں کی تعیناتی پر بھی تنظیم کے اندر دراڑیں واضح ہونے لگی ہیں۔ گزشتہ روز جہاں اطلاعات کے مطابق کالعدم تحریک طالبان نے سابق جنگجو قاری شکیل کے گروپ سے ملحقہ ایک کمانڈر کی شمولیت کا عندیہ دیا تو دوسری جانب جماعت الاحرار نے سختی سے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ قاری شکیل کا شمار ان کے انتہائی اہم کمانڈروں میں ہوتا تھا، تاہم اب جو کمانڈر ان کے نام سے ٹی ٹی پی کا حصہ بننے کا دعویدار ہے اس کا کمانڈر شکیل سے کوئی تعلق واسطہ نہیں۔
اس کہانی کا آغاز خبرکدہ کو موصول ہونے والی دستاویزات سے کچھ اس طرح ہوا کہ کالعدم تحریک طالبان کی مرکزی قیادت کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ چارسدہ کے لیئے قاری شکیل کاروان کے سربراہ ابومروان شاہ صاحب نے اپنے جنگجوؤں سمیت کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے مرکزی سربراہ مفتی نور ولی محسود کے ہاتھ پر بیعت کر لی ہے۔ اس کے جواب میں گیارہ جولائی کو ہی تحریک طالبان پاکستان غازی میڈیا کی جانب سے بیان جاری کیا گیا کہ مرکزی تنظیم کی جانب سے قاری شکیل گروپ کی نمائندگی کرنے والے جس “شاہ صاحب” کی شمولیت کا دعوی کیا گیا ہے وہ “ناقابل تصدیق” “بے بنیاد” اور “وحدت کے منافی” ہے۔
یہ تنظیم دراصل خیبرپختونخوا کے قبائلی ضلع مومند کی تنظیم جماعت الاحرار کے وہ جنگجو ہیں جو ماضی میں کالعدم تحریک طالبان کو چھوڑنے کے بعد اپنی ایک علیحدہ شناخت رکھتے تھے۔ تاہم بعد ازاں انہوں نے کالعدم تحریک طالبان میں دوبارہ شمولیت اختیار کر لی۔ قبائلی ضلع مومند میں کالعدم تحریک طالبان کے بانی عبدالولی المعروف عمر خالد خراسانی قیادت کی پالیسیوں کے باعث کالعدم تحریک طالبان سے علیحدہ ہوئے تھے۔ ان کا شمار اس خطے کے مظبوط ترین دہشتگرد کمانڈروں میں ہوتا تھا اس لیئے ان کی ناراضگی کے بعد کالعدم تحریک طالبان خاصی کمزور ہو گئی تھی۔ تاہم اگست 2021ء کے بعد انہوں نے کالعدم تحریک طالبان کی مرکزی قیادت میں اپنی جگہ دوبارہ بنا لی۔ سقوط کابل کے ایک سال بعد اگست 2022ء میں وہ ایک پراسرار دھماکے میں مارے گئے۔ اس کے بعد ان کی اپنی تنظیم کے اندر کافی غم وغصہ پایا جا رہا تھا۔ تنظیم کے اندر یہ بات بھی ہونے لگی کہ عمر خالد خراسانی کے قتل کا بدلہ کیوں نہیں لیا جا رہا ہے اور یہاں تک کہ ان کے قتل کا الزام کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ مفتی نور ولی محسود پر لگایا گیا۔
آپسی رنجشوں، اختلافات، عہدوں اور فنڈز کی تقسیم پر پاکستانی دہشتگرد تنظیموں میں اختلافات یہاں تک ایک دوسرے کو قتل کرنے کے اقدامات اور سازشیں نئی نہیں ہیں۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے بانی بیت اللہ محسود کی موت کے بعد ان کے نائب حکیم اللہ محسود کو بھی اسی بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے دور میں خیبر تا کراچی کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے اندر باقاعدہ گینگ وار شروع ہوئی۔ ان کے بعد ولی الرحمان محسود کے دور میں اور بھی دراڑیں پڑنے لگیں اور یہاں تک پوچھا گیا کہ کیا تنظیم کی سربراہی صرف محسود قبائل کا حق ہے۔ اس کے بعد جب سوات سے تعلق رکھنے والے ملا فضل اللہ آئے تو تنظیم کی سربراہی قبائل کے ہاتھ سے ہی نکل گئی۔ محسود اور مومند قبائل نے بالخصوص ان کی قیادت کو تسلیم کرنے میں پس و پیش سے کام لیا۔
کالعد تحریک طالبان کے اندر ٹوٹ پھوٹ کی اہم وجہ ان کے جنگجوؤں میں افغان جنگجوؤں کا اضافہ ہے۔ خصوصاً حافظ گل بہادر گروپ کی جنوبی اضلاع بشمول شمالی اور جنوبی وزیرستان میں موجودگی قطعاً تحریک طالبان پاکستان کو نہیں بھاتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حافظ گل بہادر گروپ کی کارروائیوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ جنوبی اضلاع میں ان کی تنظیم ہی سب سے طاقتور تنظیم ہے اور ان کی تنظیم کو افغان طالبان جنگجوؤں کا بھرپور ساتھ حاصل ہے۔ اس لیے شمال میں موجود کالعدم تحریک طالبان کے دھڑے کسی بھی وقت یہ سوال اٹھا سکتے ہیں کہ تنظیم کی مرکزی قیادت اپنے جنوبی اضلاع میں تو حافظ گل بہادر گروپ کے مقابلے میں زیادہ غیرفعال ہے پھر کس طرح قیادت کی دعویدار رہ سکتی ہے؟ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جنوبی وزیرستان سے لے کر شمالی علاقہ جات تک مختلف تنظیمیں حافظ گل بہادر سے مل رہی ہیں۔
دہشتگردی کو قریب سے دیکھنے والے تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ جماعت الاحرار کا یہ بیان دراصل مرکزی قیادت کو تنظیم کے اندر رہتے ہوئے یہ بتانا ہے کہ ان کے زیرکمان علاقوں میں مرکزی قیادت کے فیصلے غلط ہیں اور اس طرح ایک وارننگ بھی ہے کہ یہ مرکزی تنظیم کی وحدت کے منافی ہیں۔ ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ دہشتگرد تنظیموں میں علاقائی تقسیم و تنظیم اور فنڈز کے حصول پر بھی اختلافات ابھر رہے ہیں اس کے علاوہ عہدوں پر تعیناتی بھی اس وقت ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ اگر یہ مسئلے برقرار رہے تو خود دہشتگرد تنظیموں کے اندر انتشار یقینی ہے اور ماضی کی طرح ان میں گینگ وار کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔