اقوام متحدہ کے آبادی فنڈ (یو این ایف پی اے) نے بتایا ہے امریکی حکومت کے غیر ملکی امدادی پروگراموں کو عارضی طور پر روکنے سے افغانستان اور پاکستان میں صحت کے پروگراموں پر تباہ کن اثرات مرتب ہوںگے۔ 4 فروری کو یو این ایف پی اے کے ایشیا اور پیسیفک کے علاقائی ڈائریکٹر پیو اسمتھ نے جنیوا میں اقوام متحدہ کی پریس بریفنگ میں اس سنگین صورتحال پر روشنی ڈالی۔
سمتھ نے بتایا کہ امریکی فنڈز سے چلنے والی یو این ایف پی اے کی خدمات کی معطلی کے باعث ضروری صحت کی سہولیات سمیت لاکھوں افراد جنسی اور تولیدی صحت کی علاج سے محروم ہو گئے ہیں۔ افغانستان میں نوے لاکھ سے زائد افراد بشمول خواتین اور لڑکیاں صحت کی سہولیات سے محروم ہو گئے ہیں۔ اس طرح 600 موبائل ہیلتھ ٹیموں، فیملی ہیلتھ ہاؤسز، اور کاؤنسلنگ سینٹرز بھی معطلی کا شکار ہوگئے ہیں۔
افغانستان میں زچکی کے دوران اموات کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے جہاں ہر دو گھنٹے میں ایک ماں قابلِ علاج حمل کی پیچیدگیوں سے وفات پا جاتی ہے۔ اسمتھ نے خبردار کیا کہ یو این ایف پی اے کی امداد کے ختم ہونے سے یہ بحران بڑھ جائے گا جبکہ افغان خواتین اور لڑکیوں کے حقوق پہلے ہی شدید طور پر محدود ہیں۔
پاکستان میں صورتحال بھی اتنی ہی تشویشناک ہے۔امدادی سہولیات کی معطلی کے باعث سترہ لاکھ افراد بشمول بارہ لاکھ افغان مہاجرین جنسی اور تولیدی صحت کی جان بچانے والی خدمات سے محروم ہو جائیں گے۔ ڈایئریکٹر نے مزید کہا کہ پاکستان میں 60 سے زائد صحت کی سہولیات بند ہونے پر مجبور ہو جائیں گی۔
اسمتھ نے کہا کہ یہ محض اعداد و شمار نہیں ہیں بلکہ دنیا کے سب سے کمزور لوگوں کی زندگیوں کا سوال ہے۔
یو این ایف پی اے کو افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان میں ضروری خدمات کو برقرار رکھنے کے لیے اس سال 308 ملین ڈالر سے زائد کی ضرورت ہے۔ اسمتھ نے امریکی حکومت پر زور دیا کہ وہ اپنے فیصلے پر دوبارہ غور کرے اور یو این ایف پی اے کے ساتھ مل کر خواتین اور ان کے خاندانوں کے دکھ کو کم کرنے کے لیے کام کرے۔
امریکی امداد کے روک تھام سے بنگلہ دیش میں تقریباً 600,000 افراد، بشمول روہنگیا مہاجرین، تولیدی صحت کی اہم خدمات سے محروم ہو جائینگے۔