اسلام آباد اور جنوبی وزیرستان سے نامہ نگاروں کی رپورٹ
پچھلے چند دنوں میں پاکستان میں امن و امان کی صورتحال کے حوالے سے دو بڑے دہشت گرد حملے ہوئے ہیں۔ گزشتہ روز وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں کچہری کے سامنے ایک خودکش دھماکہ ہوا جس میں بارہ عام شہری جاں بحق اور تیس افراد زخمی ہوئے جبکہ دوسرا بڑا حملہ جنوبی وزیرستان کے وانا میں کیڈٹ کالج پر دہشت گردوں نے کیا جسے سیکیورٹی فورسز نے بہادری سے ناکام بنا دیا ہے۔
وانا کیڈٹ کالج پر حملہ
خیبر پختونخوا کے ضلع جنوبی وزیرستان لوئر کے صدر مقام وانا میں فوج اور دیگر سیکیورٹی فورسز نے کیڈٹ کالج پر دہشت گردوں کا حملہ ناکام بنایا اور کالج میں داخل ہونے والے تمام دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا۔ مقامی سیکیورٹی حکام کے مطابق انہوں نے کالج میں موجود سینکڑوں طالب علموں کو دہشت گردوں کے حملے سے بچا لیا البتہ اس کارروائی میں کم از کم چار سیکیورٹی اہلکار شہید ہوئے ہیں جبکہ چند افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔
حملوں کی ذمہ داری اور انحراف
اسلام آباد کے خودکش دھماکے کی ذمہ داری سب سے پہلے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ایک دھڑے جماعت الاحرار نے قبول کی تھی مگر بعد میں اس نے ذمہ داری سے انکار کر دیا۔ اسی طرح ٹی ٹی پی اور حافظ گل بہادر گروپ نے بھی وانا میں کیڈٹ کالج پر حملے کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کیا ہے۔
دباؤ میں دہشت گردوں کا طرزِ عمل
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دہشت گرد گروپس موجودہ وقت میں شدید دباؤ میں ہیں۔ جہاں وہ دہشت گردی کے حملے تو کرتے ہیں مگر پہلے کی طرح کھل کر ذمہ داری قبول نہیں کر تے اور بعض اوقات مجبوری میں اپنے کیے ہوئے حملوں کی مذمت کرتے ہیں۔ پاک افغان امور کے ماہرین کے مطابق دہشت گرد گروہ کا یہ طرز عمل نیا نہیں ہے بلکہ ماضی میں جب بھی مذاکرات ہوتے تھے تب یہ گروہ حملے کر کے بعد میں انکاری ہو جاتے تھے یا کسی نئے غیرمعقبول گروہ کی صورت میں ان حملوں کی ذمہ داری قبول کر لیتے تھے۔
افغان طالبان کی پاکستان میں حملوں کی مذمت
جب افغان طالبان نے وانا کیڈٹ کالج پر حملے کی مذمت کی تو اس کے فوراً بعد حافظ گل بہادر گروپ اور ٹی ٹی پی کی طرف سے بھی حملے کی ذمہ داری سے انکار سامنے آ گیا۔ ماہرین کہتے ہیں کہ یہ بات واضح کرتی ہے کہ پاکستان میں موجود دہشت گرد گروہ افغان طالبان کے اشاروں پر حملے کرتے ہیں اور جب وہ مذمت کرتے ہیں تو دہشت گرد گروہ بھی اس حملے سے خود کو الگ کر لیتے ہیں۔
عوامی ردعمل کا خوف اور حملوں میں ناکامی کی وجہ سے انحراف
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ آرمی پبلک سکول میں بچوں کے قتل کے بعد سے دہشت گردوں کے خلاف عوامی نفرت بہت بڑھ گئی ہے۔ اب بھی جب وہ کوئی حملہ کرتے ہیں تو عوام کی ان سے نفرت مزید بڑھ جاتی ہے۔ اسد یوسفزئی نے اس بارے میں کہا کہ: ”اگر کیڈٹ کالج کی ذمہ داری یا اسلام آباد کچہری حملے کی ذمہ داری انہوں نے قبول کر لی ہوتی تو یہ دہشت گرد گروہ عوامی ردعمل سے ڈرتے تھے اسی لیے انہوں نے ایک بار ذمہ داری لی اور پھر اس سے پیچھے ہٹ گئے۔“
تجزیہ کاروں نے بتایا کہ وانہ کیڈٹ کالج میں پانچ دہشت گرد ہلاک ہوئے ہیں۔ دہشت گردوں نے منظم طریقے سے کالج پر حملہ آور ہوئے مگر سیکیورٹی اداروں نے اس حملے کو مکمل طور پر ناکام بنا دیا۔
اسلام آباد میں مقامی عدالتوں کے گیٹ کے سامنے خودکش دھماکے میں بھی عام شہری جاںبحق ہوئے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ بہت سے وسائل استعمال کرنے کے باوجود سیکیورٹی اداروں کے تیز اور بروقت اقدامات کی وجہ سے ان کے حملے ناکام ہو جاتے ہیں اس لیے وہ پھر اس ناکام حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کرتے۔