تحریر: ریاض حسین
پاکستان کو آج ایک بار پھر عسکریت پسندی کی لہر کا سامنا ہے۔ یہ لہر صرف سرحد پار سے آنے والے خطرات کی وجہ سے نہیں ہے، بلکہ اس کی ایک بڑی وجہ اندرونی سیاسی اختلافات بھی ہیں۔ ایک امریکی جریدے ’دی ڈپلومیٹ‘ کی رپورٹ کے مطابق، وفاقی اور خیبر پختونخواہ حکومتوں کے درمیان گہری خلیج نے ایک متحدہ قومی انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی کی تشکیل کو تقریباً ناممکن بنا دیا ہے۔
سینیئر تجزیہ کار اور صحافی رفعت اللہ اورکزئی نے خبر کدا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی جنگ میں ایک تشویش ناک حد تک ابہام پایا جاتا ہے۔ یہ ابہام نہ صرف اسلام آباد اور پشاور کے درمیان ہے بلکہ سیکیورٹی اداروں کے اندر بھی موجود ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخواہ کی حکومت اکثر عسکری کارروائیوں کی مخالفت کرتی ہے جبکہ وفاقی حکومت صوبے کا ساتھ دینے میں ناکام رہی ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ "یہ عدم اتفاق بدامنی کو ہوا دے رہا ہے،” اور مزید کہا کہ خیبر پختونخواہ اور سابقہ فاٹا کے علاقوں میں دہشت گرد حملوں اور ٹارگٹ کلنگ میں ایک بار پھر اضافہ ہو رہا ہے۔
حالات اس وقت مزید پیچیدہ ہو گئے جب اڈیالہ جیل سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان نے صوبے میں جاری انسداد دہشت گردی کارروائیوں کو روکنے کا مطالبہ کیا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس موقف نے خیبر پختونخواہ حکومت کی پوزیشن کو کمزور کیا ہے اور عوامی بے چینی کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ حال ہی میں، دیر بالا میں ایک حملے میں 7 فوجی جوانوں کی شہادت نے اس بحران کی شدت کو اجاگر کیا ہے۔
اگست 2021 میں افغانستان میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے پاکستان میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے خصوصاً خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں۔ لیکن اختلافات ختم کرنے کے بجائے اسلام آباد اور پشاور میں حکومتیں متضاد سمتوں میں کھڑی نظر آتی ہیں۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے ایک سینیئر صحافی نے لکھا کہ وفاقی حکومت عسکری کارروائیوں کو واحد حل سمجھتی ہے جبکہ خیبر پختونخواہ کی حکومت کالعدم گروہوں کے ساتھ مذاکرات جاری رکھنے کی حامی ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ یہ تضاد سیاسی انتشار پیدا کر رہا ہے، جس سے عسکریت پسندوں کو اپنے حملوں میں شدت لانے کا حوصلہ مل رہا ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ کالعدم تنظیموں کے ساتھ مذاکرات نے ہمیشہ انہیں دوبارہ منظم ہونے اور مسلح ہونے کا موقع دیا۔ عمران خان کے دورِ حکومت (2018–2022) میں، سوات میں ایک متنازع بحالی پروگرام کے تحت ہزاروں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے عسکریت پسندوں اور ان کے خاندانوں کو واپسی کی اجازت دی گئی تھی۔ ناقدین نے اس اقدام کو افغان طالبان کی خوشنودی حاصل کرنے کی حکمت عملی قرار دیا۔ عملی طور پر، یہ پہل ناکام ثابت ہوئی، اور عسکریت پسندوں نے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے نیٹ ورکس کو دوبارہ قائم کیا اور سرحد پار حملوں میں شدت لائی ہے۔
ان ناکامیوں سے سبق لیتے ہوئے موجودہ مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت مخلوط حکومت اور سیکیورٹی اداروں نے ٹی ٹی پی کے ساتھ کسی بھی قسم کے مذاکرات کو مسترد کر دیا ہے اور سخت کارروائی پر اصرار کیا ہے۔ تاہم، ماہرین کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخواہ میں ماضی کی کارروائیاں بھی دیرپا کامیابی فراہم کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ عسکریت پسند مسلسل حملے کر رہے ہیں۔ حالیہ کارروائی میں بنوں میں ایک کیمپ پر حملے میں 6 فوجی جوانوں کی شہادت کے بعد مہمند، شمالی وزیرستان اور بنوں میں 19 عسکریت پسند مارے گئے۔ اسی طرح باجوڑ میں ایک کرکٹ میچ کے دوران بم دھماکے میں ایک شخص جاں بحق اور کئی زخمی ہوئے۔ بلوچستان کے نوشکی میں بھی آئی ای ڈی دھماکے میں فرنٹیئر کور کے اہلکار شہید اور شہری زخمی ہوئے ہیں۔
یہ لگاتار حملے پاکستان کی ایک ایسے اتفاق رائے پر مبنی انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی کی فوری ضرورت کو اجاگر کرتے ہیں جس پر سب کا اتفاق ہو۔ ماہرین زور دیتے ہیں کہ سیاسی اتحاد اور ایک واضح، مربوط سیکیورٹی پالیسی کے بغیر عسکریت پسندی ملک کو غیر مستحکم کرتی رہے گی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اتحاد کی غیر موجودگی نے پاکستان کو ایک ایسے وقت میں کمزور کر دیا ہے جب عسکریت پسندوں کی جانب سے خطرات بڑھ رہے ہیں۔