پاکستان کے قبائلی ضلع باجوڑ میں شدت پسندوں کے خلاف ایک بڑے فوجی آپریشن کا آغاز ہو چکا ہے، جس کے بعد ہزاروں مقامی باشندوں کو نقل مکانی کرنا پڑی ہے۔ یہ آپریشن مقامی عمائدین اور شدت پسندوں کے درمیان امن جرگہ کی ناکامی کے بعد شروع کیا گیا، جب عسکریت پسندوں نے علاقے کو خالی کرنے سے انکار کر دیا۔
سرکاری ذرائع کے مطابق باجوڑ کی تحصیل ماموند میں تین لاکھ کی آبادی میں تقریباً 800 دہشتگردوں کے خلاف آپریشن جاری ہے، جس کے نتیجے میں اب تک 40 ہزار سے زائد افراد اپنے گھروں کو چھوڑ کر محفوظ مقامات پر منتقل ہو چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر لوگ سرکاری طور پر قائم کیمپوں میں رہائش اختیار کر رہے ہیں۔
کمشنر ملاکنڈ ڈویژن عابد وزیر نے میڈیا کو بتایا کہ بے گھر ہونے والے افراد کے لیے خار میں رہائش کا مکمل انتظام کر لیا گیا ہے۔ اس میں 107 سرکاری عمارتیں شامل ہیں جہاں لوگوں کو ٹھہرایا جا رہا ہے، جبکہ خار اسپورٹس کمپلیکس میں ایک خیمہ بستی بھی قائم کی جا رہی ہے۔ انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ نقل مکانی کرنے والے تمام افراد کو تمام بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں گی۔
صوبائی وزارت داخلہ نے نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ تین روزہ آپریشن کے دوران باجوڑ کے مختلف علاقوں میں مکمل کرفیو نافذ رہے گا۔ 11 اگست صبح 11 بجے سے 14 اگست صبح 11 بجے تک عوام کو گھروں سے نکلنے یا سڑکوں پر آنے کی سخت ممانعت ہے۔ کرفیو کا مقصد شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنانا اور آپریشن کو بغیر کسی رکاوٹ کے مکمل کرنا ہے۔
شہریوں کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ کرفیو کے دوران اپنے گھروں میں رہیں اور ضروری کاموں کو 11 اگست کی صبح 10:30 بجے تک مکمل کر لیں۔ کرفیو کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
سرکاری ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ باجوڑ اور خیبر کے علاقوں میں 800 کے قریب دہشتگرد موجود ہیں۔ ان میں سے 80 فیصد سے زیادہ افغان باشندے ہیں جو اس علاقے میں سرگرم ہیں۔ یہ آپریشن ان شدت پسندوں کو ختم کرنے اور علاقے میں امن و امان بحال کرنے کے لیے شروع کیا گیا ہے۔