نئی جنگ اور سی ٹی ڈی

اکیس نومبر 2023ء کو لگ بھگ چار بجے کے قریب ساتھی احسان اللہ ٹیپو محسود نے ٹوئیٹ کے ذریعہ خبر دی کہ محکمہ انسداد دہشت گردی خیبرپختونخواہ نے شمالی وزیرستان سے ہمارے ساتھی احسان داوڑ کا نام انتہائی مطلوب دہشت گردوں کی فہرست میں جاری کردیا ہے۔ حالانکہ وہ قبائلی صحافیوں میں سب سے زیادہ پرامن رہنے والے ساتھیوں میں جانے جاتے تھے۔ پھر یہ کہ وہ مختلف سرکاری اداروں سے بھی منسلک رہے۔ کچھ دیر تک تو یقین نہیں آیا کیونکہ خیبرپختونخواہ انسداد دہشت گردی کیا کسی بھی سرکاری تحقیقی ادارے سے اتنی بڑی غلطی ممکن نہیں ہوسکتی۔ لیکن تھوڑی دیر بعد میری یہ غلط فہمی دور ہو گئی۔ ایسا کیسے ممکن ہوا؟ وہ پولیس جس کو دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں ہم مثال کے طور پر پیش کرتے تھے۔ جس نے اپنے کئی اعلی افسران کے جنازے اٹھائے اور جو واقعی فرنٹ لائن فورس کے طور پر جانی جاتی تھی۔ جس نے شہروں کے گلی کوچوں میں خودکش حملہ آوروں کا پیچھا کیا وہ آج اس مقام تک کیسے پہنچی اور وہ بھی اس وقت کہ جب 2021ء کے بعد خیبرپختونخواہ کا صوبہ ایک نئی ابھرتی جنگ کا سامنا کر رہا تھا ایسے میں یہ بنیادی غلطی خود اس مثالی فورس کا مذاق اڑا رہی تھی۔ دراصل اس زوال کا آغاز صوبے میں تحریک انصاف حکومت کے ساتھ ہی ہوا تھا۔ جب پولیس اور پاک فوج قبائلی اور بندوبستی علاقوں میں آپریشن کے بعد ایک پرامن صوبہ تحریک انصاف کے حوالے کر گئی اور تحریک انصاف بجائے اس کے کہ آپریشنز کے بعد ان علاقوں میں ترقی پر توجہ دیتی اس نے مرکزی حکومت کے خلاف اس صوبے کو مورچہ بنایا اور اسلام آباد میں دھرنا دے دیا جس کا اختتام آرمی پبلک سکول پر ہونے والے حملے کے بعد ہوا۔ تحریک انصاف کی حکومت کو یاد دلایا گیا کہ ابھی بلا ٹلی نہیں ہے۔ تب ملک بھر میں آپریشن ضرب عضب کیا گیا اور اس کے بعد قبائلی علاقوں کا انظمام ہوا جہاں امن کے قیام کے بعد بھرپور ترقی اور مستقل قیام امن کی ضرورت تھی۔2019ء میں جب تحریک انصاف مرکز میں بھی  تھی اور صوبے میں بھی تو خیبرپختونخواہ پولیس کو “مثالی پولیس” کے نام پر ایک سیاسی پولیس بنایا گیا۔ یہ وہ وقت تھا کہ افغانستان کی بدلتی صورتحال صاف نظر آ رہی تھی تاہم تحریک انصاف کی ترجیحات میں یہ کہیں نہیں تھا۔ گزشتہ دس برسوں میں عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما بشیر احمد بلور کے بعد ان کے صاحبزادے ہارون بلور، تحریک انصاف کے رہنما اسراراللہ گنڈاپور ان کے بھائی اکرام اللہ گنڈاپورسمیت بڑے بڑے سیاسی قائدین کی خودکش حملوں میں ہلاکت ہوئی۔

آج بھی یہ سارے سیاسی قتل سی ٹی ڈی کی فائلوں میں غیرحل شدہ واقعات کی شکل میں موجود ہیں۔ میں نے ایک بارعوامی نیشنل پارٹی کی رہنما اور ہارون بلور کی بیوہ ثمرہارون بلور سے پوچھا کہ ان کے گھر کے دو بڑے رہنما دہشت گردی کا شکار ہوئے اس کے بعد تفتیش کا کیا بنا؟ تو اس نے مجھے بتایا کہ ان کو آج تک معلوم نہیں ہوا کہ ان دونوں کو کس نے مارا اور کیسے مارا۔ خیبرپختونخواہ انسداد دہشت گردی کی کارکردگی حالیہ دور میں کبھی بھی تعریف کے قابل نہیں رہی۔ حال ہی میں پولیس لائنز میں ہونے والے حملے کے حوالے سے جو پیش رفت ہوئی اس میں بھی خود پختونخواہ پولیس کا اہلکار ملوث نکلا۔ اس کے علاوہ دو ڈویژنز میں جب پولیس کی رٹ کمزور ہوئی تب پختونخواہ پولیس کے سربراہ کو عہدے سے ہٹادیا گیا اس کے بعد اب نئی قیادت سے توقعات وابستہ کی جا رہی ہیں۔

افغانستان کی بدلتی صورتحال اور پختونخواہ حکومت کی ترجیحات

جب 2021ء میں افغانستان میں صورتحال بدلنے لگی تو اس کی لہر پاکستان اور خصوصا خیبرپختونخواہ پر صاف نظرآ رہی تھی۔ بجٹ دستاویز اور سنٹرفار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی سٹڈیز کی تحقیق کے مطابق سال 2022-23 کے لیے پختونخواہ پولیس اور امن وامان کے لیے مجموعی طور پر59.6ارب روپے کا بجٹ مختص کیا گیا جس میں انسداد دہشت گردی کی مد میں صرف 6.5 ارب روپے رکھے گئے۔دوسری جانب دہشت گردی کے حوالے سے اب تک نسبتا زیادہ محفوظ صوبے نے بجٹ برائے سال 2022-23 میں پنجاب پولیس کے لیے 225 ارب روپے رکھے گئے جس میں صرف انسداد دہشت گردی کے محکمے کے لیے لگ بھگ بارہ ارب روپے رکھے گئے اور بعد ازاں دس ارب روپے کے خصوصی پیکیج کا بھی اعلان کیا گیا۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ خیبرپختونخواہ حکومت کی ترجیحات میں دہشت گردی کتنی اہمیت کی حامل ہے۔

خطے کی بدلتی صورتحال اور انسداد دہشت گردی خیبر پختونخواہ کی اہمیت

جیسا کہ ذکر کیا گیا کہ افغانستان اور وسط ایشیائی ریاستوں میں صورتحال تیزی سے بدل رہی ہے اور اس خطے کو اس وقت عسکریت پسندی کے معاملے میں ایک نئے انتشار کا سامنا ہے ایسے میں ایک فرنٹ لائن صوبے کی حیثیت سے خیبرپختونخواہ کی اہمیت پہلے سے کہیں بڑھ چکی ہے۔ چار دہائیاں قبل اس خطے میں جنگ کا آغاز روس جیسے ملک کی جارحیت کے خلاف جہاد سے ہوا اس کے دو دہائیوں کے بعد اس جنگ نے امریکی جارحیت کے خلاف ایک نئے جہاد کی شکل اختیارکر لی۔ گزشتہ دو دہائیاں اسی جنگ کی نظر ہوئیں۔ اب اس جنگ نے عقیدے کی جنگ کی شکل اختیار کر لی ہے جہاں اسلام کے مختلف مکتبہ فکر اس اعتبار سے تصادم کی طرف جا رہے ہیں کہ شریعت کی کونسی شکل صحیح ہے۔ یہ جنگ اس خطے میں مغل دور میں بھی موجود تھی لیکن اتنی ہولناک نہیں تھی جتنی اس وقت ہے۔ ایسے میں جہاں خیبرپختونخواہ کی سرحد کے اس پار افغانستان میں سات ارب ڈالر کا اسلحہ موجود ہے تو دوسری طرف خیبرپختونخواہ پولیس چند سو کروڑ کے بجٹ سے کیسے اس جنگ کا مقابلہ کرے گی جب کہ انسداد دہشت گردی پولیس خیبرپختونخواہ کو فارنزک کے لیے بھی پنجاب کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ نا تو ان کے پاس باضابطہ کوئی آپریشنل فورس موجود ہے اور نا ہی ان کے پاس جدید سہولیات اور تربیت سے آراستہ پولیس افسران موجود ہیں۔ اس محکمے کی یہ حالت ہے کہ آج آپ محکمہ انسداد دہشت گردی میں ہیں تو کل آپ ٹریفک پولیس میں لگ سکتے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف بیانیہ کس طرح بنانا ہے وہ تو آپ بھول ہی جائیں۔

جامعہ دارلعلوم حقانیہ میں مولانا حامدالحق کا قتل اور سی ٹی ڈی

ان حالات میں جب تمام تر سیکیورٹی خدشات کے باوجود پولیس کی ایک بھاری نفری کے بیچ میں ایک خودکش حملہ آور دیوبند مکتبہ فکر کی سب سے بڑی درسگاہ میں اس کے سربراہ کو موت کے گھاٹ اتارتا ہے تو کئی روز تک یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ قتل ہوا کیسے؟ کون آیا؟ کیسے آیا؟ کیوں آیا؟ کس طرح آیا؟ یہ سوالات کئی روز تک الٹا خیبرپختونخواہ انسداد دہشت گردی پولیس کا پیچھا کرتے ہیں بجائے اس کے کہ وہ اس کا پیچھا کریں۔ یہی وجہ ہے کہ دارلعلوم کی جانب سے بھی عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا۔آخری اطلاعات آنے تک سی ٹی ڈی کو کوئی سراغ نہیں ملا تھا۔ اگر کچھ بھی نا ملے تو ہمارے لیے اچنبے کی بات نہیں ہو گی کیونکہ اس صوبے میں گزشتہ دس سالوں میں درجنوں ایسے واقعات ہوئے ہیں جس کا آج تک سراغ نہیں ملا یا کم ازکم عوام کو نہیں بتایا گیا کہ جب درجنوں لوگ مارے گئے تو وہ کون تھے جنہون نے یہ کیا؟ کیوں کیا؟ کیسے کیا؟ کس طرح کیا؟ اور جب اس طرح کے سوالات کے جوابات نہیں ملتے تو ریاست پر اعتماد کمزور ہونے لگتا ہے۔

پولیس کی نئی قیادت اور سی ٹی ڈی

جمیعت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے حال ہی میں بیان دیا ہے کہ صوبے میں اداروں کا خاتمہ کیا گیا۔ انہوں نے یہ بیان خصوصا صوبے میں امن وامان کے حوالے سے دیا۔ ایک ایسے وقت میں جب صوبے میں پولیس کے سربراہ کا تعلق جنوبی اضلاع سے تھا خود جنوبی اضلاع میں پولیس کی رٹ ختم ہونے لگی تھی۔ نئے سربراہ کو گزشتہ دس سال میں ہونے والی محکمہ پولیس کے ادارے کی بربادی کا ملبہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ خصوصی طور پر خیبرپختونخواہ محکمہ انسداد دہشت گردی کی ازسر نو تعمیر کا چیلنج بھی درپیش ہے۔ ان کو یہ ذہن میں رکھنا ہوگا کہ یہ جنگ ہر لحاظ سے مختلف ہے جنگ کا انداز اور اہداف دونوں بدل چکے ہیں۔

متعلقہ خبریں

مزید پڑھیں