پیر کے روزامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نےایک نیا ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا جس کے ذریعے فارن کرپٹ پریکٹسز ایکٹ (ایف سی پی اے) کے تحت مقدمات کو روک دیا گیا ہے۔ اس اقدام کو ماہرین نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور اس کو بدعنوانی کے خلاف امریکی موقف پر کاری ضرب قرار دیا ہے۔
یہ قانون 50 سالہ پرانا ہے جس کا مقصد امریکی کمپنیوں کو غیر ملکی اہلکاروں کو رشوت دے کر کاروبار حاصل کرنے یا فائدہ اٹھانے سے روکنا ہے۔
ٹرمپ نے طویل عرصے سے ایف سی پی اے پر تنقید کی ہے اور اس قانون کو خوفناک قرار دیا ہے ۔ بقول ٹرمپ یہ قانون امریکی کاروباروں کو نقصان پہنچاتا ہے۔
انہوں نے اوول آفس میں ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے اور کہا کہ اس قانون کے خاتمے سے امریکہ کا کاروبار بڑھے گا۔
اس آرڈر میں اٹارنی جنرل پام بونڈی کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ موجودہ اور ماضی کے ایف سی پی اے کے اقدامات کا جائزہ لیں اور نئے نفاذی اصول تیار کریں۔ وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ موجودہ پالیسی بہت جارحانہ ہے، جس کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر مقابلہ کرنے والی امریکی کمپنیوں کے لیے غیر متوازن حالات پیدا ہوتے ہیں۔ وائٹ ہاؤس کے ایک فیکٹ شیٹ میں کہا گیا ہے کہ ایف سی پی اے کا سخت نفاذ امریکی کاروباروں کو نقصان پہنچاتا ہے کیونکہ یہ ان کو ایسے کاموں سے روکتا ہے جو بین الاقوامی حریفوں میں عام ہیں۔
تاہم ناقدین اس سے سخت اختلاف کرتے ہیں۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے ایف سی پی اے کو عالمی بدعنوانی کے خلاف امریکی کوششوں کو ایک نمایاں حیثیت دی ہے۔ امریکی ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر گیری کولمین نے کہا کہ ٹرمپ کا آرڈر بدعنوانی کے خلاف اس اہم ہتھیار کو کمزور کرتا ہے اور ممکنہ طور پر اسے مکمل طور پر ختم کرنے کا راستہ ہموار کرتا ہےجس سے رشوت کے خلاف جنگ کو نقصان پہنچنے کا خدشہ بڑھے گا۔
امریکی صدر کی اس اقدام سے بین الاقوامی سطح پر اہم اثرات مرتب ہونگے جس سے امریکہ کی عالمی بدعنوانی کے خلاف عزم کو متزلزل کرے گی اور یہ قدم ممکنہ طور پر عالمی سطح پر اس کی حیثیت کو کمزور کر سکتا ہے۔