ہندوستان میں پاک میڈیا بند:دل پہ مت لے یار!


خراسان ڈائری جو کہ پاکستان کا ایک مشہور ڈیجیٹل پلیٹ فارم ہے ان کا ٹوئیٹر اکاونٹ ہندوستان کی وایو سینا نے گولہ باری سے بند کردیا۔ یقین نا آئے توکوئی بھی ہندوستانی چینل چلا کر دیکھ لیجئے یہی حال ہے آج ہندوستان کی صحافت کا۔
اب کیا کہیں؟ ہندوستان ہے کہ مان ہی نہیں رہا کہ وہ یہ جنگ ہار چکا ہے۔ یوں سمجھیئے ہندوستان کی قیادت نے خود کو اور اپنی قوم کو ہالی ووڈ فلم اے بیوٹی فل مائینڈ کے رسل کرو کی طرح بنا دیا ہے جسے لگتا ہے کہ ہر جگہ اس کے دشمن ہیں۔ یہ فلم نیش نامی ریاضی دان کے بارے میں ہے جو شیزوفرینیا کا مریض بن جاتا ہے۔ ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی نے ایک اچھی خاصی قوم کو شریزوفینیا کا مریض بنا دیا ہے۔ ایک ایسی قوم جس کو روح افزاء میں بھی “جہادی شربت” نظر آتا ہے اور یہ ثابت کرنے کے لیے کہ روح افزاء کا جہاد سے کوئی لینا دینا نہیں بات بھارتی عدالتوں تک چلی جاتی ہے۔ پھر نوجوانوں کی شادی کے پیچھے “لو جہاد” نظر آنے لگتا ہے۔ یہ تو کچھ بھی نہیں اپنے بانی جواہرلال نہرو کے بارے میں آج کے ہندوستانی ایمان کی حد تک قائل ہیں کہ وہ مسلمان تھا۔ چلو یہاں تک تو مان لیتے ہیں آگے کہتے ہیں وہ افغانستان سے آیا تھا۔ ہندوتوا کا مقصد ہی ایک قوم کو نفرت کا عادی بنانا ہے۔ لیکن مودی کے لیے صرف نفرت ہی کافی نہیں ایک خوف بھی چاہیئے۔

خوف کے لیے دشمن کی ضرورت ہے۔ ایک ایسا دشمن کہ جس سے قوم کو ڈرایا جائے۔ قوم ڈرے گی تو اسے دفاع کے لیے ایک لیڈر کی ضرورت ہوگی۔ لیڈر بھی ایسا جو بھگوان بنے۔ ایک ایسا بھگوان جو ان کو بچائے۔ اور وہ ہندوستانی قوم کے لیے نریندر مودی ہیں یہ بتانے کے بعد تب نظر پڑتی ہے ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت مسلمان پر جس نے سینکڑوں سال ان پر حکومت کی۔ نفرت ایسی کہ ان کے وجود کو نصاب کی تاریخ سے مٹایا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ مسلمان کو ہندوستان کی تاریخ سے نکال دو گے تو تاج محل دکھاتے وقت کیا کہوگے کہ یہ جنات نے بنایا تھا۔ عجیب قوم ہے یہ ہندوستانی بھی مطلب کچھ بھی یہاں تک کہ بالی وڈ کے ایک بڑے ستارے نے یہاں تک کہہ دیا کہ گائے کا پیشاب پینے سے اس کی ہڈیاں جڑ گئیں۔

وہ تو بھلا ہو ہندوستان کے ڈاکٹروں کا کہ انہوں نے فورا تصحیح کردی کہ یہ تو گائے کا فضلہ ہے اب اگر کسی جاندار کا فضلہ پیو گے تو وہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ ہندوستان کا بالی ووڈ اربوں ڈالرز کی انڈسٹری بن چکی ہے۔ یہ کس طرح آیئے آپ کو بتاتے ہیں۔ فن تصورات کا نام ہے۔ تخیلق کی صلاحیت سے آپ کو فن پر عبور حاصل ہوتا ہے۔ اب سوچیئے کہ کو لوگ نفرت میں مبتلا ہوں اور خوف کی حالت میں ہوں اور آپ ان کو ایک خیلاتی دنیا میں لے جائیں جہاں ان کے راجہ، مہاراجہ، بھگوان اور ہیروز ہزاروں لوگوں کو مار کر ان کو بچاتے ہیں کیا یہ فارمولہ نہیں چلے گا۔ یہی تو ہے ہندوتوا کاہتھیار جس میں وہ بتاتے ہیں، سکھاتے ہیں، سناتے ہیں اور دکھاتے ہیں کہ کس طرح رام اور راون کی لڑائی ہوئی سیتا کو بچا کر لایا گیا اور ہنومان نے لنکا برباد کردی۔ بس اب اس میں کسی بھی دشمن کو راون بنا دیں، رام یعنی نریندرمودی کو ہیرو بنا دیں اور تڑکے کے لیے سیتا کو بھی ڈال دیں۔ جی ہاں یہی آپ نے دیکھا ہندوستانی فوج کی پریس کانفرنس میں  آپ کو یہ پریس کانفرنس ایک سنجیدہ عسکری پریس کانفرنس سے زیادہ ایک ایوارڈ شو کی طرح لگے گا جہاں ایک مین پرفارمر دو مہیلاؤں کے ساتھ پرفارم کرتے نظر آئیں گے۔ پریس کانفرنس میں ہیں حملے کے بعد سفید جھنڈے کی طرح سفید شرٹ پہنے ہندوستان کے سیکرٹری خارجہ وکرم مسری ان کے ساتھ ہندوستانی فوج کی کرنل صوفیہ قریشی اور ان کے ساتھ ہندوستانی فضائیہ کی ویمیکا سنگھ۔ مسلمان اور سکھ خواتین کے ذریعہ پریس کانفرنس کا مقصد اپنے ہی قوم کو پیغام دینا ہے کہ بلاشبہ ہزاروں کی تعداد میں ہم نے سکھ اور مسلمان مارے ہیں لیکن آج وہ ہمارے ساتھ کھڑے ہیں۔ ان کی گفتگو سنیئے جیسے گیند سلیم اللہ سے کلیم اللہ اور کلیم اللہ سے سلیم اللہ اور سلیم اللہ گیند کو لے کر آگے بڑے۔ لیکن رکیے گول کہاں ہے؟ پھر بھی آپ اس پریس کانفرنس کوسنیئے اور اگر کچھ سمجھ آئے تو ہمیں ضرور بتایئے گا۔

لگتا ہےکہ ڈائیلاگ شیٹ ہاتھ میں لے کر بھی انگریزی اور اردو میں کہانی گڈمڈ کر دی۔ صاف کہا گیا سوال کوئی نہیں کیا جائے گا۔ کیوں ؟کیونکہ جو ہورہا ہے وہ فلم نہیں ہےاوراس کو فلم کی طرح دکھایا جا رہا تھا۔ بہتر ہوتا کہ یہ پریس کانفرنس اکشے کمار، سنی دیول، پریانکا چوپڑا یا دیپیکا پاڈوکون کے ذریعے کرتے کم ازکم نیٹفلیکس یا ایمازون پر بک جاتی۔جگہیں دکھائی جا رہی ہیں بم گرائے جارہے ہیں جہان کی پرانی کہانیاں سنائی جا رہی ہیں لیکن کوئی یہ نہیں بتاتا کہ دو ہفتے قبل جو آتنک وادی یا عسکریت پسند پہلگام میں دس لاکھ فوج کی موجودگی میں گھسے چھبیس بے گناہ انسانوں کا خون کیا وہ کہاں سے آئے؟ کس طرح آئے؟ کیسے آئے؟ کیوں آئے؟وہ کون تھے؟ کہاں چلے گئے؟ کیسے چلے گئے؟ اب کہاں ہیں؟ ہزاروں سوالوں میں ایک ایک سوال کہ یہ جو سکرین پر فلم دکھائی گئی اس کا پہلگام واقعہ سے کیا تعلق بنتا ہے؟ یہی وجہ تھی کہ جب صبح ہوئی تو معصوم بچوں اور خواتین کی لاشیں دنیا کا منہ چڑا رہی تھیں۔

خون سے سرخ یہ پھول جیسے بچے زمین میں دبا دیئے گئے۔ ہندوستان نے نفرت اور انتقام کی ایک نئی نسل بو دی ہے۔ اس پر پھر کبھی بات ہوگی لیکن آپ ذرا پاک فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کو دیکھیئے اور سنیئے۔ صاف معلوم ہوگا کہ بھارتی فوج براہ راست پاکستان کے اندر دہشت گردی میں ملوث ہے۔ بھارتی فوج کے کس میجر نے کس طرح دہشت گرد کو تربیت دی، پیسے دیئے، کتنے دیئے، کب دیئے، کیا ٹارگٹ دیا، کس طرح دیا اور کس طرح دہشت گردی ان پیسوں، بم، تربیت سےدہشت گردی کب کہاں سرانجام دی گئی۔ یہ حقیقت ہے اور اس کو حقیقت کی طرح بتایاگیا، سنایا گیا اور دکھایا گیا۔ اب ہندوستان نے پاک فوج سے سیکھنا ہے یا نہیں سیکھنا یہ ان کی مرضی لیکن پاکستانی صحافیوں طلعت حسین، نصرت جاوید اور افتخار فردوس کے ڈیجیٹل اکاؤنٹ بند کرکے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا کو ان کی فلم حقیقت لگے گی یہ ان کی بھول ہے۔

ہندوستان نے صرف پاکستانی نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں دنیا بھر کی رپورٹنگ والے ڈیجیٹل اکاؤنٹس بند کر دیئے ہیں۔ پہلے ہم کہا کرتے تھے کہ کشمیر دنیا کا سب سے بڑا جیل ہے لیکن اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہندوستان ایک بڑی جیل بن چکا ہے۔اس جیل کے باسیوں کو ہزاروں سال پہلے کے دیوی دیوتاؤں، راجوں مہاراجوں کے یدھ کی کہانیاں سنا کر سلایا جا رہا ہے۔ یاد رکھیئے کہ جب کبھی قفس ہندوستان کا تالہ کھلے گا تو اس جیل سے زومبیز نکلیں گے جو پوری دنیا میں پھیلیں گے اور دنیا بھر کو یہ کہانیاں سچی کہانیاں بتا کر سنائیں گے۔ اس وقت ہندوستان کی گودی میڈیا جو کچھ بتا رہا ہے اسے دیکھ کر کارگل میں برکھادت کی رپورٹنگ کا “یہ دل مانگے مور” کی لائن یاد آجاتی ہے۔ آج اسی میڈیا کو دیکھ کر بے اختیار کہہ اٹھنے کو جی کرتا ہے “دل پہ مت لے یار”

Author

متعلقہ خبریں

مزید پڑھیں