خیبر پختونخوا حکومت نے صوبے میں بیش قیمت معدنیات کے فروغ اور صوبائی محاصل میں اضافہ کرنے کیلئے جمعہ 4اپریل کو مائنز اینڈ منرل ایکٹ 2025 صوبائی اسمبلی میں پیش کردی۔ یہ مسودہ پیش کرنے کی دیر تھی کہ سابق صوبائی وزیر اور پی ٹی آئی کے رہنما شکیل احمد خان نے ایوان میں دھواں دار تقریر کر ڈالی اور الزام عائد کیا کہ یہ قانون صوبائی وسائل پر ڈاکہ ڈالنے کی سازش ہے اور دراصل ملک کے وسائل پر قبضے کی سازش ہے۔ انہوں نے کہا اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد متعدد محکمے صوبوں کو منتقل ہوگئے، صوبائی خود مختاری آگئی ہے اس کے بعد یہ قانون صوبائی خودمختاری کیخلاف ہے، آئین پاکستان کیخلاف ہے حیران ہوں کابینہ نے کیسے منظور کیا اور ایوان میں کیسے پیش ہوا؟ شکیل احمد خان نے کہا کہ اس قانونی مسودہ کو پھاڑ کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دینا چاہئے۔ شکیل احمد کی تنقید کے بعد سوشل میڈیا پر اس قانون کو لے کر نئی بحث چھڑ گئی ۔
معدنیات بل پر پی ٹی آئی میں سوشل میڈیا پر جنگ
مائنز اینڈ منرل ایکٹ پر سوشل میڈیا پر جیسے تیسری عالمی جنگ عظیم کا منظر پیش کیا جارہا ہے۔ پی ٹی آئی ورکرز اور رہنما اپنے ہی پارٹی ممبران پر الزامات عائد کررہے ہیں۔ ایک دھڑا اسے صوبائی وسائل پر ڈاکہ قرار دے رہا ہے تو دوسرا اس قانون کے صوبائی مختیار کے عین مطابق ہونے کا دعویٰ کررہا ہے۔ سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کے حکومتی اور مخالف دھڑوں کی آپسی جنگ عروج پر پہنچ گئی ہے۔ صوبائی وزراءکا کہنا ہے کہ یہ بل روزگار اور قانونی کان کنی کو فروغ دے گا، جبکہ مخالفین کا دعویٰ ہے کہ باہر کے لوگ وسائل پر قبضہ کریں گے۔ مخالفین کا کہنا ہے کہ بل میں غیر مقامی افراد کو 30 سال تک کی لیز دی جا سکتی ہے، لیکن حکومتی حلقے اسے صوبے کے لیے سرمایہ کاری کا موقع قرار دے رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے ایک دھڑے کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت مخالفین کے ایجنڈے پر کام کر رہی ہے۔ کارکنان وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور اور صوبائی حکومت پر الزامات عائد کر رہے ہیں کہ یہ قانون اسٹیبلشمنٹ کا منصوبہ ہے اور مقامی کاروباروں کے مفادات کے خلاف ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس قانون پر ہونے والی زیادہ تر تنقید مفروضوں اور داخلی اختلافات پر مبنی ہے اور بہت کم لوگ اصل قانون کا مطالعہ کر رہے ہیں۔
مائنز اینڈ منرل ایکٹ میں آخر ہے کیا؟
خیبرپختونخوا حکومت نے معدنی وسائل کے شعبے کو باقاعدہ بنانے، سرمایہ کاری کے فروغ اور مقامی ترقی کو یقینی بنانے کے لیے خیبرپختونخوا مائنز اینڈ منرلز بل تیار کیا ہے۔ اس بل کا مقصد کان کنی کے نظام کو شفاف، موثر اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ بنانا ہے۔ بل کے تحت ایک نیا خودمختار ادارہ خیبرپختونخوا منرل ڈیولپمنٹ اتھارٹی قائم کیا جائے گا جو معدنیات کی تلاش، لائسنسنگ، معاہدوں اور نگرانی کے معاملات کو دیکھے گی۔ اتھارٹی کو تکنیکی، مالیاتی اور انتظامی خودمختاری حاصل ہوگی اور اس کی سربراہی ڈائریکٹر جنرل معدنیات کریں گے جبکہ ضلعی سطح پر ڈسٹرکٹ منرل کمیٹیاں بھی قائم کی جائیں گی تاکہ مقامی نگرانی اور شکایات کے ازالے کا موثر نظام قائم کیا جا سکے ضلعی نگران کمیٹیوں کی سربراہی ڈپٹی کمشنرز کرینگے ۔بل کے مطابق معدنی وسائل کو تین اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے جن میں بڑی معدنیات، چھوٹی معدنیات اور اسٹریٹجک معدنیات شامل ہیں۔ لائسنسنگ کے لیے ای آکشن، ڈیجیٹل درخواست اور شفافیت کے اصول متعارف کرائے گئے ہیں۔
تنازعات کے حل کے لیے متبادل نظام انصاف بھی فراہم کیا گیا ہے تاکہ عدالتی نظام پر بوجھ کم ہو اور فریقین کو فوری انصاف مل سکے شکایات کے ازالہ کیلئے پشاور ہائی کورٹ کے جج کی سربراہی میں ایپلٹ ٹربیونل بھی تشکیل دیاجائیگا تمام معدنی علاقوں کو جغرافیائی معلوماتی نظام یعنی جی آئی ایس میپنگ کے ذریعے رجسٹر کیا جائے گا اور مائننگ کی سرگرمیوں کی ریئل ٹائم نگرانی کے لیے ڈیجیٹل نظام متعارف کرایا جائے گا۔
مقامی آبادیوں کو روزگار، سماجی تحفظ اور شفافیت لازمی
اس قانون میں چار شقیں علاقائی تحفظ، روزگار کی فراہمی اوربنیادی سہولیات کی فراہمی سے متعلق ہیں سیکشن 79 سے 82تک کی چار شقوں میں کہا گیا ہے کہ ہر کان کنی منصوبے کے آغاز سے قبل”سماجی اثرات کا مطالعہ“ اور”سماجی اثرات کی مینجمنٹ پلان“ جمع کرانا لازمی ہے۔ اس مطالعے میں مقامی آبادی کی ضروریات، ممکنہ منفی اثرات جیسے بے دخلی یا ثقافتی نقصان، اور ڈیٹا جمع کرنے کا طریقہ شامل ہوگا۔ کمپنیوں کو مقامی توقعات کے مطابق روزگار، انفراسٹرکچر اور دیگر سہولیات کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے مکمل منصوبہ پیش کرنا ہوگا۔ ناکامی کی صورت میں لیز کی منظوری مسترد کی جا سکتی ہے اسی طرح مقامی افراد کو روزگار دینے پر زور دیا گیا ہے۔ کان کنی کمپنیاں مقامی پاکستانی باشندوں کو ترجیح دیں گی جب کہ بڑے پیمانے پر کام کرنے والی کمپنیوں کے لیے سالانہ لاگت کا کم از کم ایک فیصد مقامی افراد کی تربیت پر خرچ کرنا لازمی ہوگا۔ قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں 20لاکھ روپے تک جرمانے اور قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ کمپنیوں کو مقامی سطح پر اشیاءو خدمات خریدنے کا پابند بنایا گیا ہے تاکہ مقامی معیشت کو فروغ دیا جا سکے۔
نایاب زمینی اور سٹریٹیجک دھاتوں کا جھگڑا
اس قانون میں سب سے زیادہ ذکر دو اقسام کی دھاتوں کا ہے جس سے متعلق صرف ذکر کرکے ان کے نام ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔ ان میں نایاب زمینی دھاتیں اور سٹریٹیجک دھاتیں شامل ہیں۔ ان دونوں قسم کی دھاتوں کی لیز اور ٹینڈر کیلئے اجازت وفاقی حکومت سے لینی ہوگی جبکہ بین الاقوامی جو بھی سرمایہ کار آئیگا وہ بھی ایس آئی ایف سی کے ذریعے آئے گا ۔ قانون میں نایاب زمینی دھاتوں اور سٹریٹیجک دھاتوں کی وضاحت نہیں کی گئی تاہم بین الاقوامی طور پر ریئر ارتھ گروپ یعنی انتہائی نایاب زمینی دھاتوں میں لینتھیم اور اس سے منسلک 15دھاتیں شامل ہیں ان میں لینتھینم ،سیریم ،پراسیوڈیمیم ،نیوڈیمیم ، پرومیتھیم ، سیماریم ، یوروپیم ، گیڈولینیم ، ٹربیئم،ڈسپروزیم ، ہولمیم ،اربیم ،تھولیم ، ائیٹربیئم اورلیوٹیشیم شامل ہیں یہ چمکدار اور نرم دھاتیں ہیں اور زیادہ تر چاندی جیسی سفید رنگت رکھتی ہیں۔ نیوڈیمیم اور سیماریم مقناطیس بنانے میں استعمال ہوتے ہیں۔ نیو ڈیمیم ایک طاقتور مقناطیس ہے جو ہیڈ فونزاور الیکٹرک گاڑیوں میں استعمال ہوتا ہے۔ یوروپیم فاسفور عمومی طو رپر ٹی وی اورموبائل اسکرینز میں استعمال ہوتا ہے۔ سیریم کا استعمال شمسی پینل اور بیٹریاں بنانے میں ہوتا ہے۔ گیڈولینیم کا استعمال نیوکلیئر ری ایکٹرز میں ہوتا ہے لینتھینم سے کیمرے کے لینز، پراسیوڈیمیم سے ہوائی جہاز کے انجن بنائے جاتے ہیں پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے پہاڑی علاقوں میں لینتھینائیڈز کے ذخائر موجود ہیں لیکن ان کی مناسب کان کنی اور ریفائننگ نہ ہونے کی وجہ سے ابھی تک پوری طرح استعمال نہیں ہو پا رہے۔
اسی طرح سٹریٹیجک دھاتوں میں پلاٹینیم گروپ شامل ہے جسے کریٹیکل اینڈ سٹریٹیجک گروپ کہا جاتا ہے اس میں پلاٹینیم، پیلیڈیم، روڈیم، روتھینیم، اوسمیم، آریڈیم ، آئرن ، کوبالٹ، نکل، کاپر اور زنک شامل ہیں یہ وہ دھاتیں ہیں جن کی رسد انتہائی محدود ہوتی ہے اور انکی مانگ انتہائی زیادہ ہوتی ہے یہ خاص طور پر ٹیکنالوجی، دفاع، توانائی اور صنعتی شعبوں میں استعمال ہوتی ہے یہ اتنی اہم ہوتی ہیں کہ ان کی کمی قومی سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔ان دھاتوں کا استعمال گاڑیوں کے کیٹالٹک کنورٹرز،الیکٹرانکس، میڈیکل آلات اور ہائی ٹیک انڈسٹری میں ہوتا ہے۔ یہ ہائیڈروجن فیول سیلز اور گرین انرجی کے شعبے میں اہم کردار ادا کر تے ہیں جو مستقبل کی توانائی کا ذریعہ سمجھا جا رہا ہے۔
ان دھاتوں کی کی مخصوص خصوصیات جیسے گرمی برداشت کرنا اور زنگ سے بچاوانہیں ہتھیاروں، سیٹلائٹ، اور خلائی ٹیکنالوجی کے لیے ناگزیر بناتی ہیں۔ یہ دھاتیں دنیا میں بہت کم مقدار میں پائی جاتی ہیں جس کے باعث وہ مقامات جغرافیائی طور پر حساس بھی ہو جاتے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کی معاشی خودمختاری اور قومی سلامتی کو مدنظر رکھتے ہوئے اہم معدنیات کی پیداوار کو فروغ دینے کے لیے ایک ایگزیکٹو آرڈر مارچ میں جاری کیا۔ایگزیکٹو آرڈر کے تحت امریکی محکمہ داخلہ نے 35 ایسی معدنیات کی فہرست جاری کی ہے جنہیں سٹریٹیجک اینڈ کریٹیکل منرل قرار دیا گیا ہے یہ وہ عناصر ہیں جو ٹیکنالوجی، توانائی، دفاع، اور دیگر صنعتی شعبوں کے لیے نہایت اہم تصور کیے جاتے ہیں، جبکہ ان کی عالمی سطح پر رسد محدود ہے۔جاری کردہ فہرست میں شامل اہم معدنیات میں پلاٹینم گروپ میٹلز، نایاب زمین عناصر، لیتھیئم، کوبالٹ، ٹنگسٹن، نیوبیئم، مینگنیز اور یورینیم جیسے عناصر شامل ہیں۔ ان کا استعمال الیکٹرانکس، سیٹلائٹ، ہتھیاروں، الیکٹرک گاڑیوں، بیٹریز اور گرین انرجی ٹیکنالوجیز میں ہوتا ہے۔
وزیر اعلی سے بغض اورجھوٹا پراپگنڈہ ؟
وزیر اعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے مائنز اینڈ منرل ایکٹ 2025پر جاری تنقید کو بے بنیاد اور جھوٹا پراپگنڈہ قرار دیدیا ہے اور کہا ہے کہ انکے بغض میں بغیر تصدیق کے غلط فہمی پیدا کی جا رہی ہے۔ ویڈیو بیان میں انہوں نے کہا کہ مائن اینڈ منرل بل کے حوالے سے غلط فہیمی پیدا کی جارہی ہے جو بڑی حد تک پھیل چکی ہے کہیں بھی کوئی بھی کسی قسم کا صوبے کا اختیار کسی کو نہیں دیاجارہا نہ ہی وفاقی حکومت اور نہ ہی کسی ادارے کو دیا جا رہا ہے۔ وزیر اعلی کا کہنا تھا کہ انہیں انتہائی افسوس ہے کہ شائد میرے بغض میں اس طرح کی باتیں شروع ہوجاتی ہیں اور بغیر تصدیق کے لوگ شروع ہوجاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس قانون کے تحت غیر قانونی مائننگ کیخلاف سخت اقدامات کئے جائینگے، اب تک انتہائی نرم قانون تھا اس قانون کے تحت مشین ضبط کی جائیگی اور اس کی نیلامی کی جائیگی، قیمتی معدنیات کی ویلیو ایڈیشن کی جائیگی۔ اس کے ساتھ ساتھ، جو بھی 50کروڑ سے زائد کی صنعت لگائے گا اور ویلیو ایڈیشن کریگا تو لیز کا دورانیہ بڑھا دیاجائیگا اب عام لیز کا وقت کم کردیا گیا جو کام کریگا اس کی لیز بڑھا دی جائیگی۔