پیر کے روز پشاور میں جمعیت علماء اسلام کے زیر اہتمام ایک جرگے کا انعقاد ہوا جس میں خیبر پختونخوا میں امن قائم کرنے اور سابق قبائلی اضلاع کے لیے معاشی ترقی کے منصوبوں شروع کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
پشاور کے نشتر ہال میں منعقد ہونے والے اس جرگے کا عنوان ’پشتون قومی فاٹا مشاورتی جرگہ‘ تھا جس میں سابق فاٹا اور ملحقہ جنوبی اضلاع کے قبائلی مشران کو مدعو کیا گیا تھا۔
جرگہ کا اختتام 11 نکاتی بیان پر ہوا جس میں خیبر پختونخوا میں دہشت گردی ختم کرنے کے لیے مذاکرات کی ضرورت پر زور دیا گیا کیونکہ طاقت کا استعمال کسی نتیجے پر نہیں پہنچا۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ حکومت کو دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کے بہانے قبائلی اضلاع کے لوگوں کے خلاف سرگرمیاں بند کرنی چاہئیں۔
جرگہ نے افغانستان کے ساتھ راستے کھولنے کا بھی مطالبہ کیا۔ بیان میں کہا گیا کہ افغانستان کے ساتھ تجارت اور مسافر راستے فوری طور پر کھولے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان آمد ورفت کو آسان بنایا جائے اور قبائلی اضلاع باجوڑ، شمالی اور جنوبی وزیرستان، خیبر اور کرم سمیت پرانے تجارتی راہداریوں کو دوبارہ کھولا جائے۔
جرگہ میں قبائلی اضلاع میں بنیادی سہولیات کی کمی پر تشویش کا اظہار کیا گیا اور حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ ان اضلاع کی ترقی کو ملک کے دیگر حصوں کے برابر لانے کے لیے اقدامات کرے۔
جرگہ نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ حکومت کو خیبر پختونخوا کے عوام کے ساتھ کیے گئے وعدہ کے مطابق مختص کردہ فنڈز فوری طور پر جاری کرے اور جن کی جائیدادیں دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں میں تباہ ہوئی ہیں ان لوگوں کے نقصانات کا ازالہ کیا جائے۔
شرکاء نے مطالبہ کیا کہ خیبر پختونخوا سے حاصل ہونے والے وسائل پشتون عوام کی ترقی پر خرچ کیے جائیں، زراعت اور درآمدات پر استحصالی ٹیکس ختم کیے جائیں۔
جرگہ نے یہ فیصلہ کیا کہ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان تمام پشتون سیاسی جماعتوں کی ایک آل پارٹیز کانفرنس بلائیں گے تاکہ امن کا راستہ تلاش کیا جا سکے۔