تحریر: ریحان محمد
رواں سال تیز بارشوں اور سیلابوں نے پاکستان میں تباہی مچا دی ہیں۔ جہاں پر نہ صرف جانی و مالی نقصان ہوا ہے بلکہ انسانی صحت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
ماہرین نفسیات کے مطابق سوشل میڈیا پر سیلاب زدگان کی دردناک کہانیوں کی وجہ سے اکثر لوگوں کو ذہنی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
ڈاکٹر شہاب خان خیبرپختونخوا کے سیلاب زدہ علاقوں میں امدادی کیمپوں کا انعقاد کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سیلاب کے بعد نہ صرف سیلاب متاثرین بلکہ سیلاب زدگان کی ویڈیوز اور تصاویر دیکھنے کی وجہ سے ملک بھر میں اکثر لوگ شدید صدموں اور پریشانیوں کے باعث ذہنی بیمار بن گئے ہیں۔
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے بتایا کہ حالیہ مون سون بارشوں اور سیلابوں کے باعث ملک بھر میں 1,006 افراد جاں بحق ہوئے۔ خیبر پختونخوا میں سب سے زیادہ مجموعی اموات 504 ریکارڈ کی گئیں جن میں 90 بچے، 338 مرد، اور 76 خواتین شامل تھیں۔ پنجاب میں سیلاب سے 304 افراد جاں بحق ہوئے، جن میں 110 بچے، 143 مرد، اور 51 خواتین شامل ہیں۔ سندھ میں 80 اموات ہوئیں جن میں 35 بچے شامل تھے جبکہ بلوچستان میں 30 افراد جاں بحق ہوئے۔ گلگت بلتستان میں 41 اموات، آزاد جموں و کشمیر میں 38، اور اسلام آباد میں 9 افراد جاں بحق ہوئے۔
حادثات میں 1,063 افراد زخمی بھی ہوئے۔ ان میں پنجاب سب سے زیادہ متاثر ہوا جہاں 661 افراد زخمی ہوئے، اس کے بعد خیبر پختونخوا میں 218، سندھ میں 87، گلگت بلتستان میں 52، آزاد کشمیر میں 37، بلوچستان میں 5، اور اسلام آباد میں 3 زخمی رپورٹ ہوئے۔
ضلع بونیر کے تحصیل چغرزئی کے گاؤں جبگائے کی رہائشی 60 سالہ سامیرون سیلابی ریلے کی وجہ سے ویران کمرے میں بکھرے سامان اور کیچڑ کو دیکھ کر زار و قطار رو رہی ہیں اور کہتی ہیں کہ یہیں سے ان کی تین بیٹیوں اور تین نواسیوں کی لاشیں نکالی گئی تھیں۔ انہوں نے خبرکدہ کو بتایا کہ سیلاب کے دن ان کی تین بیٹیاں اور تین نواسیاں اس کمرے میں موجود تھیں کہ اچانک پیچھے کی طرف سے سیلابی ریلے نے دیوار توڑ دی اور پانی اور بڑے بڑے پتھر گھر کے اندر داخل ہوگئے۔ جس میں موجود تمام افراد موقع پر ہی پانی اور پتھروں کی وجہ سے جان سے چلے گئے۔
جبگائے گاؤں ضلع بونیر چغرزئی تحصیل کا وہ گاؤں ہے جہاں سب سے زیادہ 28 افراد جاں بحق ہوئے جن میں 23 افراد ایک ہی خاندان کے تھے، جبکہ دس سے زیادہ زخمی ہوچکے ہیں۔
سامیرون کا سوتیلا بیٹا مسعود شاہ کہتا ہے کہ رواں سال 15 اگست کو تیز بارشوں کی وجہ سے سیلاب کے بعد سے آج تک ان کا خاندان شدید ذہنی تناؤ سے گزر رہا ہے۔ وہ اپنی ماں کو ان بیٹیوں کے کمرے کی طرف نہیں آنے دیتا جہاں ان کی موت ہوئی تھی اور وہاں باقاعدہ پردہ لگا کر اسے ڈھانپ دیا گیا ہے۔ سب کچھ کے باوجود وہ وہاں آکر روتی ہیں اور ذہنی مسائل کا سامنا کر رہی ہیں کیونکہ وہ اپنوں کو یاد کرتے ہوئے عجیب قسم کی باتیں کرتی ہیں جبکہ بارش اور بادلوں سے ڈرتی ہیں۔
ذہنی امراض کے ماہر ڈاکٹر سردار عالم اسلام آباد اور ضلع بونیر ڈگر میں نجی کلینک میں مریضوں کا علاج معالجہ کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘سیلاب آنے کے بعد متاثرہ علاقوں کا زندہ بچ جانے والا ہر فرد کسی نہ کسی طریقے سے ذہنی طور پر متاثر ہوچکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے کی نسبت اس وقت مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ یہ لوگ شدید ٹراما (صدمے) سے گزر چکے ہیں جن کو اب ذہنی سکون کی ضرورت ہے۔’
خیبر پختونخوا میں ضلع بونیر حالیہ سیلابوں میں سب سے زیادہ متاثرہ اضلاع میں سے ایک ہے۔ بونیر پیر بابا ملک پور علاقے کے رہائشی شوکت علی کے گھر کو سیلابی ریلے نے مکمل طور پر تباہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب سیلاب آیا تو وہ اپنے گھر پر موجود تھے، پانی کا بہاؤ اچانک تیز ہوگیا اور گھر کے چاروں طرف پانی ہی پانی تھا۔ وہ اپنے 13 افراد پر مشتمل خاندان کے ساتھ گھر کی چھت پر چلے گئے۔ اس وقت ان کے گھر کی چار دیواری پانی میں بہہ گئی تھی اور گھر کے صحن سے کئی فٹ اونچا پانی کا ریلا گزر رہا تھا۔ ان کے بقول، "اس وقت ہم سب اللہ سے مدد مانگ رہے تھے، ہم سب نے ایک رسی کے ذریعے سب کو ایک ساتھ باندھ لیا تاکہ اگر ہم مر بھی جائیں تو ہم سب ایک ساتھ رہیں، جو قیامت کا منظر تھا جسے میں ابھی بھی نہیں بھول سکتا۔” انہوں نے کہا کہ وہی منظر بار بار یاد آتا ہے جس سے ان کا ذہنی سکون کھو چکا ہے۔ جبکہ ان کے خاندان کی خواتین اور بچے ڈر اور خوف کی وجہ سے ویران گھر کو نہیں آ سکتے۔
ڈاکٹر شہاب اس وقت ایک غیر سرکاری ادارے کے ساتھ سیلاب متاثرہ علاقوں میں لوگوں کا علاج کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ حالیہ سیلاب کے بعد اکثر افراد ذہنی بیمار ہوچکے ہیں۔ ہر دوسرا شخص کوئی نہ کوئی ذہنی مسائل کی وجہ سے پریشان رہتا ہے۔ شہاب کا کہنا تھا کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر سیلاب زدہ علاقوں میں میڈیکل کیمپس میں ڈیوٹی کرتے ہیں جس میں زیادہ تر مریض ذہنی مسائل کی وجہ سے دیگر امراض کی نشاندہی کرتے ہیں۔
شیر افضل ضلع بونیر تحصیل ڈگر گاگڑہ کا رہائشی ہے، ان کا گھر بھی سیلاب میں تباہ ہوچکا ہے۔ اب ان کے رہنے کی جگہ بھی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی خاص آمدنی ہے جس سے وہ اپنا گھر بنا سکیں۔ انہوں نے کہا کہ لوگ بارش کے لیے دعا مانگتے ہیں لیکن وہ بارش کی بوند سے بھی ڈرتے ہیں کہ کہیں دوبارہ سیلاب نہ آجائے۔ انہوں نے کہا کہ دن کے وقت اپنے گھر میں مرمت کا کام کرتے ہیں جبکہ رات کی تاریکی اور بارشوں سے ڈرنے کی وجہ سے رات گزارنے کے لیے رشتہ داروں کے پاس جاتے ہیں۔
پینتالیس سالہ صدیقہ پیر بابا ملک پور کی رہائشی ہیں اور ان کا گھر سیلاب میں مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے جو اب ایک ٹینٹ میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوچکی ہیں۔ صدیقہ کا ایک بیٹا فوت ہوچکا ہے جس کی بیوی اور تین بچے ان کے ساتھ ٹینٹ میں رہتے ہیں جبکہ ایک بیٹا لاہور میں محنت مزدوری کرتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے شوہر اور وہ خود کھیتوں میں کام کاج کرتی تھیں لیکن سیلاب نے ان کی فصل اور گھر مکمل طور پر تباہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ "بارش کی بوند ہوتے ہی وہ قریبی مسجد یا رشتہ داروں کے پاس جاتی ہیں کیونکہ اس جگہ سے اب ڈر لگتا ہے۔” دوسری جانب ٹینٹ میں رہنے کی سہولیات بھی نہیں ہیں۔
ماہر نفسیات ڈاکٹر آمنہ خان سیلاب زدگان کے لیے فری میڈیکل کیمپوں میں علاج معالجے کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میڈیکل کیمپوں میں خواتین اور بچے زیادہ آتے ہیں جن کا مسئلہ ایک ہی جیسا ہوتا ہے۔ ان کے مطابق اکثر مریضوں میں گھبراہٹ اور پوری رات خوف کی وجہ سے نیند کا نہ آنا اور بارش یا بادلوں سے ڈرنا شامل ہیں۔
آمنہ خان کا کہنا تھا کہ ادویات کے ساتھ کچھ ایسے طریقے مریضوں کو بتائے جاتے ہیں جن کے ذریعے وہ گھر میں ذہنی دباؤ کو کم کر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ سیلاب متاثرہ علاقوں میں اکثر ایسے مریض بھی آتے ہیں جن کا مسئلہ بہت زیادہ ہوتا ہے جن کو باقاعدہ سیشن یا علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔
محکمہ صحت خیبر پختونخوا کے مطابق ضلع بونیر میں سیلاب کے بعد علاقے میں بہت سی بیماریوں نے جنم لیا ہے جس میں جلد، آنکھوں، ہیضہ، ملیریا، ڈینگی، نفسیاتی بیماریوں سمیت دیگر امراض شامل ہیں۔ مشیر صحت کے ترجمان عطا اللہ کا کہنا ہے کہ ان بیماریوں کو کم کرنے کے لیے حکومت نے فوری طور پر بونیر اور دیگر متاثرہ اضلاع میں ادویات اور دیگر طبی سہولیات فراہم کی ہیں، اس کے علاوہ بہت سے سرکاری اور فلاحی اداروں کی جانب سے فری میڈیکل کیمپوں کا انعقاد بھی کیا جا رہا ہے۔
فلاحی ادارے کے فری میڈیکل کیمپ میں کام کرنے والی ڈاکٹر نادیہ کا کہنا ہے کہ سوات میں فری میڈیکل کیمپ میں ایک عورت آئی اور رو رہی تھی کہ اس سے پہلے اس کا تین بار حمل ضائع ہو چکا ہے۔ اب وہ چوتھی بار دوبارہ حمل ضائع ہونے سے ڈرتی ہیں کیونکہ اس بار اس کا شوہر بھی بےروزگار ہے اور سیلاب کی وجہ سے بہت بڑا نقصان ہو چکا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنا علاج جاری رکھنا ناممکن سمجھتی ہیں۔
ڈاکٹر نادیہ نے بتایا کہ "ہم نے اس کو بڑی تسلی دی لیکن اس کی آنکھوں میں خوف اب بھی بول نہیں سکتی ہوں۔” انہوں نے کہا سیلاب کے بعد ذہنی مسائل کی وجہ سے درجنوں ماں اور بچوں کی صحت متاثر ہو چکی ہے۔
ماہر نفسیات ڈاکٹر آمنہ کا کہنا ہے کہ ذہنی تناؤ سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان کھل کر اپنے مسئلے کو بیان کرے اور اپنے دماغ پر بوجھ نہ ڈالے اور ہمیشہ مثبت سوچ کرے جبکہ منفی سوچ سے باز آنا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ذہنی مریضوں کو نہ صرف دوائیوں کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ ان کو کم از کم تین ماہ کے لیے پرسکون ماحول میں آرام، سائیکوتھراپی اور ڈاکٹر کے ساتھ کنسلٹیشن کی ضرورت ہوتی ہے۔
فلاحی ادارے کے ساتھ کام کرنے والے سماجی کارکن محمد سہیل سیلاب آنے کے بعد مختلف علاقوں میں فلاحی تنظیموں کے ساتھ سیلاب زدگان کی مدد کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سیلاب کی وجہ سے لوگوں کا بہت زیادہ نقصان ہوا ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو زندگی گزارنے میں درپیش مسائل پریشان کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق اس وقت ان کے کاروبار شروع ہونے کے ساتھ جن افراد کے گھر مسمار ہوچکے ہیں ان کے لیے گھر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ان کا سوچ بدل سکے اور وہ روزگار میں مصروف ہوجائیں۔
پشاور سے تعلق رکھنے والے ماہر نفسیات ڈاکٹر سید الیاس شاہ نے خبرکدہ کو بتایا کہ انسان کے لیے ضروری ہے کہ اس کو پرسکون ماحول میسر ہو اور تھکاوٹ کم ہو۔ جبکہ اس وقت سب سے زیادہ خواتین اور بچے ذہنی مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ خواتین پہلے سے بھی گھر کے کام کاج اور بچوں کی دیکھ بھال کی وجہ سے تھکاوٹ محسوس کرتی ہیں جبکہ موجودہ حالات میں سیلاب جیسے بڑے سانحے نے مزید پریشان کر رکھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر خوف زدہ کہانیوں کو دیکھنے کی وجہ سے بھی مسائل پیدا ہوتے ہیں، اس لیے انٹرٹینمنٹ کے بغیر موبائل کو استعمال نہ کیا جائے۔