غزہ امن معاہدے نافذ؛ تمام یرغمالیوں کی رہائی اور جزوی فوجی انخلا شامل

ذرائع کے مطابق اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی معاہدے پر ابتدائی اتفاق کے بعد معاہدے کا پہلا مرحلہ جمعرات نافذالعمل ہوگیا ہے جبکہ باقاعدہ دستخط چند گھنٹوں میں متوقع ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’’اسرائیل اور حماس نے غزہ امن منصوبے کے پہلے مرحلے پر اتفاق کر لیا ہے، جس میں تمام یرغمالیوں کی رہائی، جزوی فوجی انخلا اور انسانی امداد کی بلا روک ٹوک فراہمی شامل ہے۔‘‘

واشنگٹن کے مطابق یہ امن منصوبہ ’’پائیدار جنگ بندی‘‘ کی طرف پہلا قدم ہے، تاہم امریکی حکام نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ حماس کا غیر مسلح ہونا اور غزہ پر اس کے انتظامی کنٹرول کا خاتمہ آئندہ مراحل میں سب سے بڑا چیلنج ہو گا۔

مصری نشریاتی ادارے القاہرہ ٹی وی نے دعویٰ کیا ہے کہ جنگ بندی پاکستانی وقت کے مطابق دوپہر دو بجے سے نافذ ہوگئی۔ مصری وزارتِ خارجہ نے اسے ’’اہم سفارتی کامیابی‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ شرم الشیخ میں ہونے والی بات چیت خطے کے لیے ایک نیا موڑ ثابت ہوسکتی ہے۔

ادھر اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ معاہدے پر اسرائیلی کابینہ کی منظوری کے بعد جمعرات سے جنگ بندی باضابطہ طور پر نافذ ہوگی۔ ذرائع کے مطابق اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ حماس کی جانب سے ابتدائی طور پر بیس یرغمالیوں کی رہائی متوقع ہے جب کہ اسرائیل چوبیس گھنٹوں میں شمالی غزہ سے جزوی انخلا مکمل کرے گا۔

پشاور یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر خورشید احمد کے مطابق ’’یہ معاہدہ ٹرمپ کے بیس نکاتی منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا پہلا قدم ہے۔ اگرچہ دونوں فریقوں کے درمیان کئی نکات ابھی مبہم ہیں لیکن یہ پیش رفت امید پیدا کرتی ہے کہ طویل جنگ کے بعد امن کی کوئی راہ نکل سکتی ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ حماس کے ہتھیار ڈالنے، قیدیوں کے تبادلے کے فارمولے اور غزہ کی حکمرانی کے ڈھانچے پر اختلافات بدستور موجود ہیں۔ ان کے مطابق یہ سب چیزیں وقت اور اعتماد کی متقاضی ہیں۔

سابق وائٹ ہاؤس پریس سیکریٹری ایری فلیشر نے اس معاہدے کو ’’تاریخی اور غیر معمولی‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’ماضی میں اسرائیل کے امن معاہدے مصر، اردن اور خلیجی ممالک کے ساتھ ہوئے، مگر حماس کے ساتھ براہ راست معاہدہ پہلی بار ہوا ہے۔‘‘ ان کے مطابق اس پیش رفت میں آٹھ مسلم ممالک، بشمول سات عرب اور ایک ترک ریاست، امریکا اور اسرائیل کے ساتھ شامل ہیں۔

پاکستان نے بھی معاہدے کے پہلے مرحلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے صدر ٹرمپ، قطر، مصر اور ترکی کی سفارتی کوششوں کو سراہا ہے۔ دفترِ خارجہ کے مطابق، ’’پاکستان کو امید ہے کہ یہ پیش رفت مستقل جنگ بندی اور مشرقِ وسطیٰ میں دیرپا امن کی راہ ہموار کرے گی۔‘‘

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل، ترکی، اردن، قطر اور پاکستان سمیت عالمی رہنماؤں نے بھی اس معاہدے کو خوش آئند اور تاریخی قرار دیا ہے، جبکہ غزہ اور خان یونس میں شہریوں نے جنگ بندی کی خبروں پر سڑکوں پر نکل کر خوشی کا اظہار کیا ہے۔

متعلقہ خبریں

مزید پڑھیں