علی امین کی رخصتی: اقتدار کی بھول بھلیاں اور اختلافات کا زہر

پارٹی کی اندر بیک وقت کئی محاذوں پر لڑائیاں لڑنے والے علی امین گنڈاپور وزرات اعلی کے منصب پر برقرار رہنے کی جنگ اب ہار کر گھر جا چکے ہیں۔  علیمہ خان ، پی ٹی آئی کی قومی و صوبائی قیادت اور سب سے اہم عمران خان کا نظریہ ، یہ وہ تین دشمن تھے جو علی امین گنڈاپور نے پال رکھے تھے اور جن کے خلاف وہ پوری شدت کے ساتھ لڑ رہے تھے جبکہ گنڈا پور کا چوتھا دشمن پہلے تین دشمنوں کے ساتھ انکی مسلسل انگیجمنٹ کا فائدہ اٹھا کر وہ ہی توانا ہوتا رہا اور وہ تھا صوبے میں ناکام ہوتی گورننس۔ لہذا وہ سب کچھ تو ہونا ہی تھا جو ہوا یعنی گنڈاپور صاحب کی چھُٹی بھی ہو گئی اور جاتے جاتے وہ اپنے پیچھے صوبے میں بری گورننس کا وہ پہاڑ چھ عزت گئے جو نامزد وزیراعلی سہیل آفریدی کو سر کرنا ہے۔

وہ علی امین گنڈاپور جو عمران خان کے قریبی رفقاء میں شمار ہوتے تھے جن کے گھر 2012ء میں امریکی ڈرون حملوں کے خلاف وزیرستان جانے والے خان نے قیام کیا تھا۔ سیاست کے زینے وہ تیزی سے چڑھتے گئے؛ 2013ء میں صوبائی وزیر مال، 2018ء میں وفاقی وزیر برائے سیفران و امور کشمیر اور پھر 2024ء کے انتخابات کے بعد، عمران خان نے انہیں صوبے کے سب سے بڑے انتظامی عہدے پر بٹھا دیا۔ مگر صرف 19 ماہ بعد، یہ سفر خلافِ توقع ایک اچانک موڑ پر اختتام پذیر ہوا۔

پردے کے پیچھے اختلافات اور شکایات کا ایک جال بُنا جا چکا تھا۔ ایک اہم وجہ جو ہر خاص و عام کی زبان پر تھی وہ عمران خان کی بہن علیمہ خان کے ساتھ علی امین گنڈاپور کے اختلافات تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اپنی آخری ملاقاتوں میں سے ایک میں گنڈاپور نے بانی پی ٹی آئی سے علیمہ خان کی شکایت کی تھی کہ وہ مبینہ طور پر اسٹیبلشمنٹ، بالخصوص ملٹری انٹیلی جنس کے لیے کام کر رہی ہیں۔ یہ محاذ آرائی دراصل "خاندانی سیاست” اور "اصولی سیاست” کے مابین ایک خاموش جنگ کا پیش خیمہ بن گئی۔

علی امین گنڈاپور کو وزارت اعلیٰ خیبرپختونخوا کے منصب سے ہٹانے کی ایک کلیدی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ وہ صوبے میں جاری فوجی آپریشنز کو رکوانے میں ناکام رہے، خاص طور پر باجوڑ اور وادی تیراہ جیسے سابقہ قبائلی اضلاع میں۔ بانی پی ٹی آئی نے انہیں اس معاملے پر سختی سے تلقین کی تھی کہ وہ ان آپریشنز کے خلاف مؤثر انداز میں آواز اٹھائیں اور وفاقی حکومت کے سامنے پارٹی کے مؤقف کو جارحانہ طریقے سے پیش کریں۔ تاہم پارٹی کی قیادت کو یہ شکوہ تھا کہ علی امین گنڈاپور نے اس اہم ذمہ داری کو نبھانے میں مصلحت پسندی کا مظاہرہ کیا اور ان آپریشنز کے خلاف متحرک کردار ادا نہیں کیا جس کے باعث بانی پی ٹی آئی نے اپنی جارحانہ سیاسی حکمت عملی کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انہیں عہدے سے ہٹا کر ایک زیادہ متحرک اور بیانیے پر سختی سے کاربند رہنے والے رہنما کا انتخاب کیا ہے۔ علی امین نے خیبر پختونخوا میں امن و امان کی صورتحال کے حوالے سے افغانستان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کرنے کی بات کرتے آ رہے تھے مگر وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکے۔

ذرائع کے مطابق پارٹی کارکنان کا یہ خیال تھا کہ علی امین گنڈاپور بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لیے "مؤثر انداز میں کوشش” نہیں کر رہے تھے۔ ان پر الزام تھا کہ وہ ہر احتجاج کو ” منطقی انجام تک” نہیں پہنچاتے اور عمران خان کی رہائی کے لیے ان کا کردار تمام مظاہروں کے دوران مشکوک رہا۔ پارٹی حلقوں میں یہ تاثر ابھرا کہ وہ مرکز کے خلاف محاذ کھولنے میں لیت و لعل سے کام لے رہے ہیں۔

علی امین گنڈپور کے دور میں انتظامی امور میں بدانتظامی کی شکایات عام ہوئیں، وزراء اپنے محکموں کے انتظامی سیکرٹری کے سامنے بے اختیار ہو گئے، اور پارٹی کی صوبائی و مرکزی تنظیم کے ساتھ بھی ان کے اختلافات اور گروپ بندی کو فروغ دینے کی باتیں عمران خان تک پہنچتی رہیں۔ سینیٹ انتخابات میں ٹکٹوں کی تقسیم اور موثر حکمت عملی نہ اپنا کر اپوزیشن کو اضافی نشست سے نوازنا بھی ان کے خلاف ایک بڑا چارج تھا۔ 27 ستمبر کے جلسے میں "ناقص انتظامات” اور پارٹی تنظیم کو ذمہ داریاں نہ دینے کے فیصلے نے تو گویا تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔

علی امین گنڈاپور کی "مصالحانہ پالیسی” عمران خان کی رہائی کا سبب نہیں بن سکی۔ اس لیے فیصلہ ہوا کہ انہیں ایک "جارحانہ پالیسی” کی ضرورت ہے، جس کے لیے سہیل آفریدی کا انتخاب کیا گیا۔ انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن سے تعلق رکھنے والے سہیل آفریدی، اپنی جارحانہ پالیسی اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے خلاف مسلسل تقاریر کے باعث معروف تھے۔ عمران خان، وفاقی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ایک نیا محاذ کھولنا چاہتے تھے، اور اس جارحانہ حکمت عملی کے لیے سہیل آفریدی موزوں ترین شخص تھے۔ نئے وزیر اعلیٰ کو اب بانی چیئرمین کی رہائی، افغانستان کے لیے نئی پالیسی، قبائلی علاقوں میں جاری ملٹری آپریشن کی روک تھام، اور گروپ بندی کے خاتمے جیسے بڑے چینلجز کا سامنا کرنا تھا۔

علی امین گنڈاپور کی رخصتی صرف ایک انتظامی تبدیلی نہیں تھی، بلکہ یہ اس بات کا اعلان تھا کہ پارٹی کو اب ایک "سہل پسند” رہنما نہیں، بلکہ ایک "لڑنے والا” سپہ سالار درکار تھا جو عمران خان کے بیانیے کو ہر حال میں عملی شکل دے سکے۔ اقتدار کی بھول بھلیاں میں، مصلحت پسندی اور نجی اختلافات نے بالآخر ایک بااثر ساتھی کو تخت سے اتار دیا۔

متعلقہ خبریں

مزید پڑھیں