سابقہ قبائلی اضلاع میں امن کی قیمت؛ وسائل کی کمی کے باوجود پولیس دہشت گردی کا فرنٹ لائن پر مقابلہ کر رہی ہے

25ویں آئینی ترمیم کے بعد سابقہ قبائلی اضلاع میں دیگر نظاموں کے ساتھ ساتھ پولیس نظام بھی متعارف کرایا گیا۔ لیکن اب تک یہ بنیادی ضروریات سے محروم ہے۔ پولیس کے دستاویزات کے مطابق اس وقت قبائلی اضلاع میں کل 29 ہزار سے زائد پولیس اہلکار موجود ہیں۔ جن میں سے زیادہ تر وہ ہیں جو پہلے خاصہ دار فورس کا حصہ تھے۔ دستاویزات کے مطابق 2022 اور 2023 میں سابقہ قبائلی اضلاع کی 60 فیصد پولیس ناخواندہ هے۔ پولیس کے مطابق 1000 نئے اہلکار بھرتی کیے گئے ہیں۔ جن میں 35 خواتین بھی شامل ہیں، اور خواتین پولیس اہلکاروں کی تعداد 135 تک بڑھانے کا منصوبہ ہے۔

پولیس نے بتایا کہ ان نئے بھرتی شدہ اور سابقہ خاصہ دار اہلکاروں کی تربیت جاری ہے۔جو کہ اب پولیس کا حصہ ہیں۔ پولیس دستاویزات کے مطابق 2024 تک 10 ہزار نئے اہلکاروں کی تربیت کا عمل مکمل ھو چکا ہے۔

سابقہ قبائلی اضلاع میں کتنے پولیس اسٹیشن بنائے گئی ہیں؟

پولیس دستاویزات کے مطابق 2024 تک اورکزئی ضلع میں 3، کرم میں 5، باجوڑ میں 4، مہمند میں 2، شمالی اور جنوبی وزیرستان میں 3، 3، اور ایف آر میں ایک نیا پولیس اسٹیشن بنایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ان علاقوں میں اسپیشل برانچ اور سی ٹی ڈی کے لیے بھی دفاتر قائم کیے گئے ہیں۔
کتنے بجٹ کی منظوری دی گئی؟
پولیس دستاویزات کے مطابق 2019 اور 2020 میں پولیس کا بجٹ تقریباً 15 ارب روپے تھا۔ جس کا 94 فیصد تنخواہوں پر خرچ ہوا۔ جبکہ 2024 اور 2025 میں 24 ارب روپے کے بجٹ کا 97 فیصد تنخواہوں پر خرچ ہو رہا ہے۔

پولیس کی جدید تربیت


خیبر پختونخوا پولیس کے سابق ایڈیشنل آئی جی صلاح الدین کے مطابق، “قبائلی اضلاع کی پولیس کی جدید تربیت ناکافی ہے اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے مزید وسائل کی ضرورت ہے۔” انہوں نے کہا کہ موجودہ بجٹ، تربیت، اور افرادی قوت کے ساتھ سابقہ قبائلی اضلاع میں دہشت گردی کو مکمل طور پر روکنا مشکل ہے۔ تاہم، پولیس دستاویزات کے مطابق قبائلی اضلاع کی پولیس نے تربیت کا عمل شروع کر دیا ہے اور مرحلہ وار ان علاقوں کی پولیس کو تربیت دی جا رہی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد تقریباً 7 ارب ڈالر کے ہتھیار وہاں چھوڑے گئے۔ جن میں سے زیادہ تر ہتھیار پاکستانی طالبان کے ہاتھ لگے ہیں۔ جو پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں استعمال ہو رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق جدید ہتھیاروں کے علاوہ دہشت گردوں کے پاس نائٹ ویژن ڈیوائسز بھی ہیں۔ جو رات کے وقت پولیس کی ٹارگٹ کلنگ میں استعمال ہو رہی ہیں۔ خیبر پختونخوا پولیس نے حال ہی میں بتایا تھا کہ انہوں نے جنوبی اضلاع کے لیے نائٹ ویژن کا خصوصی بندوبست کیا ہے اور زیادہ تر پولیس اسٹیشنز کو نائٹ ویژن فراہم کر دیے گئے ہیں۔

حکومت کیا اقدامات اٹھا رہی ہے؟


رواں سال وفاقی حکومت نے ای ای پی پروگرام کے تحت سابقہ قبائلی اضلاع کے لیے تقریباً 36 ارب روپے مختص کرنے کا اعلان کیا تھا، جن میں سے 7 ارب روپے پولیس کے لیے مختص تھے۔ وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا تھا کہ 7 ارب روپے سے سابقہ قبائلی اضلاع کی پولیس کے لیے جدید ہتھیار خریدے جائیں گے، انہیں تربیت دی جائے گی، اور دیگر کمیوں کو پورا کیا جائے گا۔

متعلقہ خبریں

مزید پڑھیں