پاکستان اور افغانستان نے اپنی مشترکہ سرحد کے پار لوگوں کی قانونی نقل و حرکت کو آسان بنانے کے لیے تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔
پیر کے روز اسلام آباد میں دونوں ممالک کی وزارتِ خارجہ کے درمیان ایک نئے ایڈیشنل سیکرٹری سطح کے میکانزم کے افتتاحی اجلاس کے دوران یہ دوطرفہ فیصلہ کیا گیا۔
پاکستانی نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار کے 19 اپریل کے دورہ افغانستان کے بعد ہونے والے ان مذاکرات میں دوطرفہ تعاون کے کئی اہم شعبوں پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ ان میں تجارت اور ٹرانزٹ، سلامتی، اور روابط شامل تھے۔ دونوں فریقوں نے خطے کے استحکام کو درپیش دہشت گردی کے اہم خطرے کو تسلیم کیا ہے۔
پاکستان نے افغانستان کے اندر سرگرم دہشت گرد گروہوں کے خلاف ٹھوس کارروائی کی ضرورت پر زور دیا اور پاکستان کی سلامتی اور علاقائی ترقی پر ان کے تباہ کن اثرات کو اجاگر کیا ہے۔
مذاکرات میں تجارت اور ٹرانزٹ تعاون میں بہتری بھی شامل تھی جس میں سینیٹر ڈار کے دورہ کابل کے بعد متعارف کرائی گئی اقدامات پر پیشرفت کا جائزہ لیا گیا۔
ان اقدامات کا مقصد افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کو 10% پروسیسنگ فیس ختم کرکے، انشورنس گارنٹ، معائنے کم کرکے، اور ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم نافذ کرکے ہموار کرنا ہے۔
اجلاس میں علاقائی روابط کی اہمیت کو اجاگر کیا گیاجہاں دونوں فریقوں نے ازبکستان-افغانستان-پاکستان ریلوے کے فریم ورک معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے سنجیدہ کوششوں کا عہد کیا ہے۔
افغان شہریوں کی وطن واپسی بھی زیر بحث آئی ہے۔ پاکستان نے افغانستان سے دستاویزی سفر کو آسان بنانے کے لیے اپنی کوششوں کو اجاگر کیا جس میں جنوری 2024 سے اب تک 500,000 سے زیادہ ویزوں کا اجراء شامل ہے۔
دونوں ممالک نے مشترکہ چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے مسلسل رابطے کا اعادہ کیا جو علاقائی ترقی اور مضبوط دوطرفہ تعلقات کے لیے پائیدار سلامتی کو اہم قرار دیا ہے۔ ایڈیشنل سیکرٹری سطح کے مذاکرات کا ایک اور دور باہمی سہولت کی تاریخ پر طے کیا گیا ہے۔