عوامی لشکروں کی شکل میں سیکیورٹی فورسز کو خیبر پختونخوا میں نیا پارٹنر مل گیا !

حالیہ مہینوں میں خیبر پختونخوا کے قبائلی اور جنوبی اضلاع میں جہاں ایک طرف سیکیورٹی فورسز کی جناب سے آپریشنز میں اضافہ ہوا ہے وہیں مقامی رہائشیوں پر مشتمل عوامی لشکر بنانے کے رجحان نے بھی زور پکڑ لیا ہے جس کے باعث دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک نیا فریق سیکیورٹی فورسز کے شانہ نشانہ میدان میں سامنے آ گیا ہے۔ اس وقت قبائلی اضلاع، اپر دیر اور  ہنگو سمیت کئی اضلاع میں عوامی لشکرز تشکیل پا چکے ہیں کیونکہ عوام دہشت گردوں کی اپنے علاقوں میں موجودگی سے بیزار ہو چکے ہیں اور وہ اب یہ چاہتے ہیں کہ یا تو دشت گرد واپس افغانستان چلے جائیں یا پھر ان کا کر کے ان کو مار دیا جائے۔

“ دہشت گردوں کا مقابلہ اب ایسے ہی ہو سکتا ہے کہ پولیس اور سیکویورڑی فورسز کے ساتھ ساتھ عام عوام بھی لشکروں کی شکل میں اٹھ کھڑے ہوں اور میدان میں آ جائیں،” اس بات کا اظہار  اپر دیر سے تعلق رکھنے والے دلیل خان نے خبر کدہ کے ساتھ خصوصی گفتگو میں کیا۔”

انہوں نے بتایا کہ ستمبر کے مہینے میں اپر دیر کے مختلف علاقوں میں دہشت گردوں کی موجودگی دیکھی گئی، مگر بعد میں مقامی پولیس اور سیکیورٹی اداروں نے دہشت گردوں کے خلاف فوجی کارروائیاں شروع کر دیں۔

پولیس کے مطابق تین روزہ آپریشن میں دس کے قریب دہشت گرد مارے گئے۔ ان کارروائیوں میں دو مقامی افراد بھی شہید ہوئے، جو سیکیورٹی اداروں کی مدد کر رہے تھے، جبکہ پانچ پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔

دلیل خان کا کہنا تھا:

"اپر دیر میں تمام قوموں کے لوگ دہشت گردوں کے خلاف متحد ہو گئے تھے اور سب نے مل کر پولیس اور سیکیورٹی فورسز کا ساتھ دیا۔” انہوں نے مزید کہا کہ:

"ہم نے حکومت سے کوئی اسلحہ نہیں لیا، بس حکومت کی اخلاقی حمایت حاصل ہے۔ ہمارا مقصد صرف اپنی علاقہ کو پرامن رکھنا ہے اور ہم اپنی زمین کو بدامنی کی نذر نہیں ہونے دیں گے۔”

سوال: حالیہ دنوں میں کن علاقوں میں عوام نے دہشت گردوں کے خلاف سیکیورٹی فورسز کا ساتھ دیا؟

خیبر پختونخوا میں اس وقت امن کمیٹیوں کی درست تعداد معلوم نہیں، تاہم دیر سے تعلق رکھنے والے ایک مقامی رہنما، امیر خان کے مطابق اب ہر اس جگہ پر لوگ سیکیورٹی اداروں کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں جہاں دہشت گرد موجود ہوں اور سیکیورٹی فورسز یا عام شہریوں پر حملے کریں۔ انہوں نے کہا کہ:

"جہاں بھی دہشت گرد جاتے ہیں، وہاں لوگوں سے زبردستی مانگتے ہیں، اور سیکیورٹی فورسز پر حملے کرتے ہیں، اس لیے لوگ اپنے تحفظ اور علاقے کی حفاظت کے لیے فورسز کی مدد کرتے ہیں۔”

میڈیا رپورٹس کے مطابق، گزشتہ ستمبر میں ہنگو، اورکزئی، لکی مروت، دیر اور دیگر کئی علاقوں میں عوام نے سیکیورٹی اداروں کے ساتھ مل کر دہشت گردوں کے خلاف لڑائی کی۔

ہنگو ضلع کے ناریاب علاقے میں ایک دہشت گرد حملے میں امن کمیٹی کے دو ارکان محفوظ رہے، جس کے بعد مقامی لوگوں نے اسلحہ اٹھایا اور سیکیورٹی فورسز کی مدد سے دہشت گردوں کو بھاگنے پر مجبور کر دیا۔

ناریاب امن کمیٹی کے جنرل سیکرٹری حسن محمود نے بتایا کہ ان کی کمیٹی کا مقصد علاقے میں دہشت گردوں کی نئی لہر کو روکنا ہے۔ ان کے بقول، مقامی لوگوں اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان یہ معاہدہ ہوا ہے کہ لوگ خود اپنے علاقوں میں گشت کریں گے تاکہ امن قائم رکھا جا سکے۔

حسن محمود نے کہا کہ حکومت نے انہیں اسلحہ اور مدد دینے کی پیشکش کی تھی، لیکن انہوں نے سرکاری ہتھیار نہیں لیے انہوں نے کہا:

” ہم اپنی علاقہ کی حفاظت خود کر سکتے ہیں۔”مزید کہا:

"ہم حکومت سے کوئی مطالبہ نہیں کرتے، بس چاہتے ہیں کہ اورکزئی اور ہنگو کے علاقوں میں دیگر علاقوں سے آنے والے مسلح افراد کو روکا جائے، اور حکومت یہاں سیکیورٹی چیک پوسٹیں قائم کرے۔”

"جو بھی دہشت گرد علاقے میں موجود ہیں، وہ دہشت گردی چھوڑ دیں اور ہتھیار ڈال دیں، ورنہ انہیں علاقے سے نکالا جائے گا اور ان کے گھر جلائے جائیں گے۔”

امن کمیٹیوں کو اسلحہ کون دیتا ہے؟

اپر دیر سے تعلق رکھنے والے دلیل احمد خان کہتے ہیں کہ بھاری اسلحہ تو سیکیورٹی اداروں کے پاس ہوتا ہے، لیکن ہلکا اسلحہ عوام کے پاس اپنے روایتی تحفظ کے لیے پہلے سے موجود ہوتا ہے۔ جب بھی خطرے کا ماحول پیدا ہوتا ہے، تو لوگ اپنی بندوقیں نکالتے ہیں، اور لڑائی کے وقت سیکیورٹی فورسز انہیں کارتوس اور دیگر ضروری ہتھیار فراہم کرتی ہیں۔

لیکن ہنگو سے تعلق رکھنے والے حسن محمود کہتے ہیں کہ وہ دور دراز علاقوں میں رہتے ہیں، جہاں رات کے وقت نوجوان ہتھیاروں سمیت گشت کرتے ہیں تاکہ دہشت گرد کسی گاؤں میں داخل نہ ہو سکیں۔ ان کے مطابق، اب تک انہیں حکومتی ہتھیاروں کی ضرورت نہیں پڑی۔

پرانے اور موجودہ امن کمیٹیوں میں کیا فرق ہے؟

قبائلی علاقوں میں 2007 اور 2008 کے دوران مقامی سطح پر دہشت گردوں کے خلاف امن کمیٹیاں بنائی گئی تھیں۔ ان کمیٹیوں کو حکومت کی مکمل حمایت حاصل تھی۔

مہمند سے تعلق رکھنے والے سابق امن کمیٹی کے رکن سہراب خان نے بتایا کہ "اس وقت حکومت ہمیں اسلحہ دیتی تھی، اور ضرورت کے وقت نقد رقم اور افرادی قوت بھی فراہم کرتی تھی۔”

انہوں نے کہا کہ "یہ دہشت گردوں کے خلاف پہلا عوامی ردعمل تھا، حکومت مدد کر رہی تھی، لیکن عوام بھی چاہتے تھے کہ علاقہ پرامن ہو جائے۔ ان کمیٹیوں نے بڑی حد تک دہشت گردوں کو کنٹرول کیا تھا۔”

لیکن دلیل احمد خان کہتے ہیں کہ "اب عوام بغیر کسی سرکاری مدد کے دہشت گردوں کے خلاف کھڑے ہو گئے ہیں، اور وہ نہیں چاہتے کہ سیکیورٹی فورسز یا عام لوگوں کو کوئی مالی یا جانی نقصان پہنچے۔”

امن کمیٹی والوں کی اسلحہ چلانے کی تربیت کیسے ھوتی ھے اور مقامی انتظامیہ سے رابطے

مہمند ضلع کے امن لشکر کے سابق رکن سہراب خان نے کہا کہ موجودہ لشکروں کی صحیح تعداد معلوم نہیں ہوتی۔ کیونکہ ماضی میں لشکر حکومتی سطح پر بنتے تھے اور ان کی تعداد بھی کسی حد تک معلوم ہوتی تھی۔ لیکن اب عام لوگ خود ہی اٹھتے ہیں اور لشکر کی کوئی صحیح تعداد معلوم نہیں ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کے حملوں کے وقت ہر قوم کے نوجوان بڑی تعداد میں حصہ لیتے ہیں اور دہشت گردوں کو اپنے علاقوں سے نکالنے تک سیکیورٹی فورسز کے ساتھ مل کر آپریشنز میں مصروف رہتے ہیں۔ سہراب خان نے مزید کہا کہ خیبر پختونخوا کے زیادہ تر علاقوں کے لوگ، خصوصاً قبائلی اضلاع کے لوگ، افغان جہاد کے زمانے سے بڑی اور چھوٹے ہتھیاروں کے استعمال سے واقف ہیں اور انہیں کسی خاص تربیت کی ضرورت نہیں ہوتی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اپر دیر سے دلیل احمد خان کے مطابق پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں کے ساتھ مقامی لوگوں کے مسلسل اجلاس ہوتے ہیں۔ ان کی بنیاد پر مقامی مشران اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان مضبوط رابطے ہوتے ہیں اور کسی بھی بدامنی کے وقت ٹیلیفون کے ذریعے سیکیورٹی فورسز کو آسانی سے بروقت مطلع کیا جا سکتا ہے۔

کیا کمیٹی کے لوگ دہشت گردوں کی دھمکیوں کا سامنا کرتے ہیں؟

اس سے پہلے حکومت کی طرف سے بنائی گئی امن کمیٹیوں کے ارکان کو اکثر دہشت گردوں نے نشانہ بنایا۔ وہ بارودی مواد کے دھماکوں اور ٹارگٹڈ حملوں میں مارے گئے۔ لیکن دلیر احمد خان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر امن چاہتے ہیں اور اسے کسی بھی حال میں دوبارہ بدامنی کی طرف نہیں جانے دیں گے۔

تجزیہ کار امن کمیٹیوں کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟

خیبر پختونخوا پولیس کے سابق اے آئی جی اختر علی شاہ نے خبرکده کو بتایا کہ:

"عوام اب اسلحے اور تشدد سے تنگ آ چکے ہیں۔ 1980 کی دہائی میں بدمعاش لوگوں سے زبردستی پیسے لیتے تھے، اغوا کرتے تھے، آج وہی کام دہشت گرد کر رہے ہیں۔” انہوں نے کہا کہ "اُس وقت بھی جب لوگ تنگ آئے، تو دہشت گردوں کے خلاف کھڑے ہو گئے۔ آج دہشت گردوں نے لوگوں کا جینا دوبھر کر دیا ہے، اس لیے عوام ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔”

متعلقہ خبریں

مزید پڑھیں